Circle Image

محمد وسیم سدوی

@@wasimsidwi

محمد وسیم سدوی

شمعِ خاوری پیکر پیرِ کاملاں ﷺ آئے
تیرگی مٹانے کو شاہِ کل زماں ﷺ آئے
ذکرِ مصطفٰی ﷺ سے ہی بزمِ دل فروزاں ہے
عاشقوں کی محفل میں فخرِ عاشقاں آئے
یہ سفر محمد ﷺ کا مومنو مبارک ہو
ذوالجلال سے ملنے جب وہ لامکاں آئے

0
75
گرچہ لفظوں میں کم ہے غم صاحب
اس کی باتوں میں تو ہے دم صاحب
آپ جائیں تو جان جاتی ہے
فاصلے کیجئے سو کم صاحب
اب نہ لوٹیں گے ہم نے سوچا تھا
پھر وہیں آ رکے قدم صاحب

0
54
نَے محبت نہ کج ادائی ہے
تیری کیسی یہ دلربائی ہے
زندگی ! تیرا قہقہہ سن کر
موت چپکے سے مسکرائی ہے
کر رہے ہیں سنی سنائی بات
دکھتا ہے جو پہاڑ ، رائی ہے

0
63
اجڑ گیا محل سرا تو کیا ہوا
مکینِ دل چلا گیا تو کیا ہوا
میں حیلہ گر فریب ساز شہر میں
برے کے ساتھ ہوں برا تو کیا ہوا
گل اس کی زلف میں سجا ہوا تو ہے
وہ شاخ سے بچھڑ گیا تو کیا ہوا

0
52
ہم کو لگا کہ شہر مٹانے گھٹا اٹھی
رب کا کرم کہ چشمِ زدن میں بلا ٹلی
ہر شخص دھوکہ باز تھا ہر شخص بد لحاظ
صد شکر تجھ سے شہر میں رسمِ وفا چلی
انساں کی گر عطا میں خدائی کا زعم ہو
ایسی سخاوتوں سے ہے اچھی گدا گری

0
51
جب کہیں ذکرِ نبی ﷺ مَدْح سرا کرتے ہیں
نورِ ایقان سے افلاک سجا کرتے ہیں
بے شبہ پل میں وہ مقبول دعا ہوتی ہے
جس میں ہم نام محمد ﷺ کا لیا کرتے ہیں
آلِ پر آپ ﷺ کی پڑھتے ہیں درود و صلوات
ذکرِ اطہار سے ہم روح فزا کرتے ہیں

0
56
اشعار میں اب کھیل تماشا نہ کریں گے
لفظوں سے بتِ یار تراشا نہ کریں گے
ہم دَشْت نَوَردوں کو مَحَل راس نہیں ہے
گھر رات بتانے کو تلاشا نہ کریں گے
پھر راہ بدل لی مرے ہم راہ نے کہہ کر
پتھر پہ کفِ پا کو خراشا نہ کریں گے

0
63
اک ایثار کے اس میں حوالے دیکھے تھے
یعنی باپ کے ہاتھ میں چھالے دیکھے تھے
غصے میں بھی پیار کی دھارا بہتی تھی
ڈانٹ ڈپٹ میں پند نرالے دیکھے تھے
اس کا ہاتھ پکڑ کے چلنا سیکھا تھا
سائے میں شفقت کے ہالے دیکھے تھے

0
63
رختِ سفر گنوا کے جو بے خانماں اٹھے
سِدْویؔ نہ کیوں جہان سے اب بھی جہاں اٹھے
جب ان کو آئنہ سرِ محفل دکھا دیا
ناراض ہو کے مجھ سے مرے ہم عِناں اٹھے
فتویٰ اگر ہو قتل کا ہر آدمی کے پاس
پھر کیوں نہ تیرے شہر سے ہر ایک جاں اٹھے

0
62
سب دشمنِ جاں اپنے ہمراہ نظر آئے
لے کر جو چلے بھائی تو چاہ نظر آئے
غفلت کے اندھیروں میں محبوس فقط ہم تھے
نادان جنہیں سمجھے ، آگاہ نظر آئے
تعریف کرے منہ پر اور پیٹھ پہ ہنستا ہے
اس دوست میں اک دشمن واللہ نظر آئے

0
43
کب پھونکِیے گا صُور کوئی بات کیجئے
کیا من میں ہے فُتُور کوئی بات کیجئے
بے وَجْہ ہم سے آپ نہ پہلو تہی کریں
اتنا بھی کیا غُرُور کوئی بات کیجئے
کوئی سنے نہ تو در و دیوار کے ہی کان
ہیں سامعیں وَفُور کوئی بات کیجئے

0
91
اک شان سے جب رشکِ قمر بات کرے گا
جل آتشِ الفت میں شرر بات کرے گا
نَے دست و شکم دل بھی وہاں بول اٹھیں گے
نَے خاک ہی اس روز تو زر بات کرے گا
سلطانی نہ حشمت ہی تری باقی رہے گی
دن حشر کے محکوم نڈر بات کرے گا

0
41
زوال کی وجہ کوتاہیءِ ملول نہیں
نہ صرف ہار ہمیں جیت بھی قبول نہیں
کسی کے ہونے سے گو دنیا خوبصورت تھی
اگرچہ جانے سے بھی زیست بے امول نہیں
تمہیں ہے ناز اگر اپنی تاج داری پر
ہمارا فقر بھی تو راستے کی دھول نہیں

0
42
وہ سنگ تھا تو جوش بھی سیلِ رواں میں تھا
کیا جانے ولولہ سا مرے ہم عِناں میں تھا
ترکِ تعلقات ہو یا اس سے دوری ہو
منصف ترا تو فیصلہ میرے زیاں میں تھا
کچھ کچھ عیاں تھا جذبہِ جوش و جنون اور
کچھ کچھ نہاں بھی خانۂِ ذات و گماں میں تھا

0
43
اپنی آزادی اور وقار کو دیکھ
اے اسیرِ قفس نہ خار کو دیکھ
عارضی زندگی کا راگ نہ چھیڑ
دائمی عمر و برگ زار کو دیکھ
تیغ زن تجھ کو تھی جو حسرتِ دید
پس تو بسمل کے خوں فشار کو دیکھ

0
34
کوئی پوچھے گا تو بتاؤں گا
ورنہ کیا راستہ دکھاؤں گا
تو زمیں بن کے آزما تو سہی
چاند بن کے میں جگمگاؤں گا
آ کبھی بیٹھ سامنے میرے
اپنی پھر داستاں سناؤں گا

0
60
مکیں دن بھر یہاں پر چیختا ہے
یہ تُو کِس کی لحد میں آ پڑا ہے
تکبر تیرے لفظوں میں بھرا ہے
ترا انداز گو اشراف سا ہے
خدا کے سامنے سرکش ہے کیونکر
بتا انساں تری اوقات کیا ہے

0
54
شجر سے آج جو پتا جھڑا ہے
ہمہ تن آندھیوں سے وہ لڑا ہے
تجھے تنہائیاں ڈسنے لگی ہیں
یا اپنی قبر میں تو آ پڑا ہے؟
شکستِ فاش الفت میں ہوئی پر
شکستہ دل ابھی ضد پر اڑا ہے

0
52
ہر اصطلاح سے جس کی غلط لغت نکلی
تمام لفظوں پہ اس کی ہی سلطنت نکلی
سمجھ رہا تھا جسے دوست دلربا اپنا
عدو کے ساتھ اسی کی مفاہمت نکلی
خوشی بھی رنج بھی تیرے ہی نام کے نکلے
وصال و ہجر میں کچھ تو مماثلت نکلی

0
61
دامنِ کوہ سے جیسے کہ دھواں اٹھتا ہے
صورتِ اشک کسی دل سے فغاں اٹھتا ہے
ساکھ اپنی جو بنائی ہے سنبھالے رکھنا
جو بھی گر جائے نظر سے وہ کہاں اٹھتا ہے
واعظا پند و نصائح میں ترے جبر ہے کیا؟
دین سے اب کے شب و روز اماں اٹھتا ہے

0
49
پلک جھپکتے میں سارا جہان روٹھ گیا
پدر کے بعد مرا خاندان روٹھ گیا
ابھی ہوں زخمی ، دریدہ نشان باقی ہیں
حبیب میرا مسیحا سمان روٹھ گیا
سخن گداز سبھی لہجے اس کے باعث تھے
ہوئے ہیں تلخ کہ جب خوش زبان روٹھ گیا

0
36
دلِ بیتاب سے بے تال دھواں اٹھتا ہے
پیکر و روح ہیں پامال دھواں اٹھتا ہے
مسلکِ عشق کے فتنوں سے تو بچ نکلا ہوں
حدتِ ہجر سے تاحال دھواں اٹھتا ہے
عَبَث اِک تلخی سے دشمن ہوئے ہیں دوست یہاں
بن گئے آتشِ سیال ، دھواں اٹھتا ہے

0
40
شجر گرے کہیں غنچے چٹک گئے
جب آنسو چشمِ صنم سے ٹپک گئے
دیارِ غیر میں لیلائیں چل پڑیں
غموں کی ڈال پہ مجنوں لٹک گئے
نہ جانے کیسے مرے غم گسار تھے
نمک جو زخم پہ میرے چھڑک گئے

0
64
خرد کی چشم سے جو شش جہات دیکھیں گے
وہ پل صراط پہ اپنی حیات دیکھیں گے
قدم ثبات ہوں جن کے وہ پائیں گے منزل
سب اپنے قدموں میں نا ممکنات دیکھیں گے
جہانِ حسن ، طلسمِ فرنگ سے نکلو
ہمارے ساتھ چلو کائنات دیکھیں گے

0
89
کیوں رفیقوں سے پوچھتا ہے تو
خود سے خود بھی تو پوچھ کیا ہے تو
مجھ کو مجھ سے نکال کر مجھ میں
عشق بن کر اتر چکا ہے تو
ڈولتے دیکھتا ہوں قدم تیرے
مے کشوں میں نیا نیا ہے تو

0
41
اگرچہ گفت و شنید اپنی خال خال نہ تھی
پہ دوستو سے عداوت بھی تو حلال نہ تھی
کچھ آستیں میں چھپے ہیں عدو نما بھی دوست
دروغ گوئی میں جن کی کہیں مثال نہ تھی
اس انجمن میں کوئی اور جانتا ہی نہ تھا
بلاتا کون تھا ان سے تو بول چال نہ تھی

0
28
جھکا کے اپنی جبیں توشۂِ نجات کریں
دعائیں مانگ کے سب دور مشکلات کریں
جو دل پہ گزرے گراں ذکرِ سانحات کریں
ہمیں جو چھوڑ گئے آج ان کی بات کریں
جو درمیاں ہیں تساہل کے فاصلے حائل
حضور رب کے جھکیں ذکرِ پاک ذات کریں

0
45
معاملات کو سنگین کر نہیں سکتے
کبھی وہ عشق کی توہین کر نہیں سکتے
یہ سچ ہے دوستوں پر جاں نثار کرتے ہیں
مگر اک ایک کو دو تین کر نہیں سکتے
جفا گروں میں ہمارا بھی نام آتا ہے
وفا کی آپ کو تلقین کر نہیں سکتے

0
37
خدا سے دین سے رکھا اگر کنارا ہے
کمایا حضرتِ انسان نے خسارا ہے
منافقت ہے تو لا ریب تیری قسمت میں
ملال و رنج ہے اور اضطراب سارا ہے
نجات ان سے مودت بغیر ناممکن
نبی ﷺ کی آل تو جنت کا استعارا ہے

0
33
گو جانتا ہوں کوئی تجھ سا کج ادا بھی نہیں
ترے علاوہ صنم کوئی ہم نوا بھی نہیں
ہنسی کی گونج میں پوشیدہ سسکیاں بھی ہیں
یہ بات سچی نہیں گرچہ افترا بھی نہیں
وہ ہم سے نظریں ملائے کبھی گریز کرے
وہ بے حیا بھی نہیں اور پارسا بھی نہیں

0
70
معاملت میں یہ دنیا فریب کار نہ ہوتی
تو زندگی بھی کسی کی سراب زار نہ ہوتی
اگر وہ اپنے نشیمن میں آئنہ بھی لگاتے
ہماری ان کو ضرورت یوں بار بار نہ ہوتی
یوں الفتوں میں صنم ہم تنک مزاج نہ ہوتے
اگر تمہاری محبت حساب دار نہ ہوتی

0
46
رفیق اپنے بھی ہوتے غم آس پاس نہ ہوتے
قرار پاتے ، اگر ہم جہاں شناس نہ ہوتے
ترے یقیں پہ تردد کریں مجال کہاں تھی
جو درمیان ہمارے صنم قیاس نہ ہوتے
گلاب کھلنے کی اب کچھ امید باقی نہیں ہے
جو رہتی بادِ بہاراں چمن اداس نہ ہوتے

0
38
ترے فریب سے پہلے غموں کی زد میں نہیں تھا
مصاحبت کا بھلا ہو دل اپنی حد میں نہیں تھا
نصابِ عشق پڑھا ہے میں نابلد تو نہیں ہوں
عدم جوازِ رفاقت کسی سند میں نہیں تھا
سمجھ سکا نہ کبھی میں حیاتِ ثانیہ کے بھید
کفن بدن سے جدا تھا ، بدن لحد میں نہیں تھا

0
52
تیغِ قلم سے تجھ کو ہرا دوں گا
ظالم ترا میں تخت ہلا دوں گا
مت صبر آزما کہ یہ بہتر ہے
خاموشی ورنہ سنگ نما دوں گا
ایندھن دیے کو دے کے لہو کا میں
اس بڑھتی تیرگی کو مٹا دوں گا

0
71
رشوت ستاں نہیں ہے امیر اپنا
خوش فہم دل رہا ہے اخیر اپنا
ضدی ، انا پسند عناصر ہیں
آخر اٹھا کہاں سے خمیر اپنا
اب کوئی اعتراض نہیں کرتا
جانے کہاں گیا ہے نکیر اپنا

0
45
کیسی انا تھی طیش دکھانے سے ڈر گیا
وہ آدمی تو ملنے ملانے سے ڈر گیا
للکار میں وہ رعب تھا تن کانپنے لگا
دشمن بھی مجھ پہ تیر چلانے سے ڈر گیا
ٹھوکر لگے تو لگتی رہے کس کو فکر ہے
رستے کے پتھروں کو ہٹانے سے ڈر گیا

0
41
سنسار جس کے حیلے حوالے سے ڈر گیا
وہ شخص میرے ایک مقالے سے ڈر گیا
کیا جانے خامشی میں اثر تھا کہ ظلم کیش
پل میں ستم رسیدہ کے نالے سے ڈر گیا
تا عمر خوفِ حسرتِ دل میں جیا کوئی
کوئی تخیلات کے جالے سے ڈر گیا

0
57
اب تو نظر میں شاخ نشیمن کہیں نہیں
ہم جس چمن کے گل تھے وہ گلشن کہیں نہیں
رخصت ہوا ہے باپ تو رشتوں سے ڈر گئے
ہم ڈھونڈتے ہیں پر وہ لڑکپن کہیں نہیں
کلکاریاں بھی بیٹی کی معدوم ہو گئیں
اب پائلوں میں باقی وہ چھن چھن کہیں نہیں

0
52
خدا کا ڈر ہے زر ہے اور میں ہوں
نزع نزدیک تر ہے اور میں ہوں
ترا اک مستقر ہے اور تو ہے
کٹھن میرا سفر ہے اور میں ہوں
نقاب اس کے رخِ گلنار پر ہے
نظر بیتاب تر ہے اور میں ہوں

0
35
عیاش حکمراں سے مقصود کچھ نہیں
ملت کو اب اُمِیدِ بہبود کچھ نہیں
صدمات، تنگ دستی، افراطِ مفلسی
شاعر ہوں ایک یعنی موجود کچھ نہیں
اندیشہ بے گھری کا ، روٹی نہ دال ہے
فاقہ زدوں کے گھر میں افزود کچھ نہیں

0
48
عوام پر وہ عنایات کیوں نہیں کرتا
امیر ترک مفادات کیوں نہیں کرتا
کہے وہ شہر فسوں کار ہے، مگر ہم پر
طلسم شہرِ طلسمات کیوں نہیں کرتا
وہ جس کے سحرِ نظر سے بھٹک گئے ساحر
وہ شخص مجھ سے ملاقات کیوں نہیں کرتا

0
53
اگرچہ مجھے ملا نہ کرے ، مگر وہ خفا ہوا نہ کرے
ملن کی نہ کوئی آس رہے ، ہو ایسے جدا خدا نہ کرے
خدا سے تو ڈر ، نہ ہاتھ جھٹک ، گدا سے برا سلوک نہ کر
کہیں نہ خدا سے شکوہ کرے کہ تجھ کو ہرا بھرا نہ کرے
کہیں پہ خزاں بہار بنی ، کہیں پہ صبا بھی قہر بنی
کسی کا چراغ جل نہ سکے کسی کا دیا بجھا نہ کرے

0
41
آزاد سوچ ہے تو ، زنجیر کچھ نہیں
ایسی ہو گر غلامی تحقیر کچھ نہیں
محبوب با ادب ہو ، اور با وفا بھی ہو
اس خواب کی اگرچہ تعبیر کچھ نہیں
کاغذ، قلم، کتابیں، اشعار، کرسی، میز
ان کے سوا ہماری جاگیر کچھ نہیں

0
49
ہے ترش مزاج تخت نشیں ، سخن کا زماں تمام ہوا
جہاں سے سخن طراز گیا یوں حسنِ بیاں تمام ہوا
زمان و زمن نہ دیکھ سکی نگاہِ نیاز تشنہ رہی
زمین سے ہم اٹھائے گئے ، لو قصۂِ جاں تمام ہوا
یہی ہے نوائے نغمۂِ دل ، خدا نہ کرے اداس ہو تو
خوشی میں تری خوشی ہے مری پیام یہاں تمام ہوا

0
31
اِہانتِ دل فگار نہ کر تو چاہے چڑھا دے دار مجھے
رفیق بدلنا چاہے اگر ، نہ جاتے ہوئے پکار مجھے
تمھارے رخِ جمال کی لَو ، تمازتِ آفتاب سی ہے
ٹھہرنا یہاں محال مجھے فرار بھی ناگوار مجھے
نصیب اگر بچھڑنا ہے ، تو ملال سے ہم کنار نہ کر
نظر سے مری گرائے مجھے نہ صدمہ دے جاندار مجھے

0
38
تٹ طاس چھین کر بھی یہ بے لباس کیوں ہے
حق نا شناس آدم ، موقع شناس کیوں ہے
بے اعتباری کیا ہے ؟ لاحق ہے فکر کیسی ؟
قسمت گو مہرباں ہے دل پُر ہِراس کیوں ہے
یہ کیا کہ زندگی بھر یوں نا سپاس رہنا
آئے نہ چین کیوں کر ؟ شب زاد یاس کیوں ہے

0
47
بجلی گرے کہیں یا تلوار آ گرے
یا اپنے سر پہ گھر کی دیوار آ گرے
مزدور گِھر گئے ہیں فکرِ معاش میں
ہڑتال سے بچے تو تہوار آ گرے
اس مے کدے کو لوگو مت مے کدہ کہو
جس مے کدے میں کوئی دیں دار آ گرے

0
52
چن ماہی خیر تیری مطلوب آج کل ہے
دل پوچھے کون تجھ سے منسوب آج کل ہے
دستورِ عشق کیا ہے؟ بدلا نصاب کتنا
دلبر تو ہی بتا کیا اسلوب آج کل ہے
گھر میں بلا کے ہم کو گھر سے نکالتے ہیں
مہماں نوازی ان کی کیا خوب آج کل ہے

0
58
لگا تھا دور ہے پر تھا وہیں قاتل پسِ دیوار
مقیمِ آستیں نکلا ، ملا ہے بل پسِ دیوار
بظاہر جاں چھڑکتا ہے پسِ پردہ عداوت ہے
وہ نظریں ہم پہ ٹھہری ہیں زبان و دل پسِ دیوار
ہمارے ذہن کی الجھی ہوئی گرہیں نہیں سلجھیں
پسِ زنداں رہا ماضی کہ مستقبل پسِ دیوار

0
44
تو نہیں تو شہرِ عتاب میں کوئی غم گسار نہیں رہا
میں سخن نگار نہیں رہا تو مرا وقار نہیں رہا
میں قضا کا شکر ادا کروں یہ لحد تو جائے قرار ہے
کہ جہاں کی فکر نہیں رہی غمِ روزگار نہیں رہا
تمھیں مومنو یہ نوید ہے کہ یہ راہ راہِ نجات ہے
ہے نفاق و کفر کا راستہ جو ابد قرار نہیں رہا

0
33
مرے دل سے دور نہ ہو سکا جو کبھی قریب نہیں رہا
وہ مجھے نہیں ملا تو کیا وہ مرا حبیب نہیں رہا
تو مشامِ جاں سے نکل گیا تو دریچۂِ شبِ غم کھلا
میں یہاں سے تجھ کو نکال دوں یہ مرا نصیب نہیں رہا
نہ خزاں بہار چمن میں ہے نہ ہیں بلبلیں نہ ہی گل کھلے
ہے مثالِ نغمۂِ سنج دل ، کوئی عندلیب نہیں رہا

0
45
جو زدِ ہراسِ قضا رہا ، میں وہ آدمی ہوں ڈرا ہوا
کہ نہ ذی حیات نہ جاں بلب ، شرِ زندگی کا ڈسا ہوا
جو سبق عروج و زوال کا وہ فریب کار سکھا گئے
نہ کتاب میں تھا پڑھا ہوا نہ ہمیں تھا پہلے رٹا ہوا
سرِ عام اپنی بھڑاس اب دلِ بے قرار نکال دے
جو ترے حرم کا مکین تھا ، وہی آج تلخ نوا ہوا

0
256
کرنا ہے اگر اقرار تو کر، دنیا کا ہے ڈر تو پیار نہ کر
اس آتشِ عشق میں کود صنم اب جلنے سے انکار نہ کر
جس نے آواز اٹھائی ہے وہ شہرِ فتن میں دار چڑھا
تو جان سے جائے دیوانے اتنا بھی سماج سدھار نہ کر
نہ اندھیرے میں کوئی دیپ جلا، سیٹی نہ بجا سناٹے میں
غفلت میں ان کو رہنے دے مد مستوں کو بیدار نہ کر

0
31
اک درد میں ڈوبی نظم لکھوں
اور تیری جفا تحریر کروں
جو کرب ہے میرے سینے میں
لفظوں میں پرو کر پیش کروں
تو اس کو پڑھے تو چیخ اٹھے
یہ درد و غم محسوس کرے

0
73
مفلس ہیں تو، کیا خوش پوش تماشا دیکھیں گے
غربت کا مری ہم دوش تماشا دیکھیں گے؟
جو بولے گا سر اس کے تن سے جدا ہو گا
سب لوگ کھڑے خاموش تماشا دیکھیں گے
جس ظلمتِ رنج سے پتھر دل بھی تڑپ جائیں
اسے دیکھ کے ہم آغوش تماشا دیکھیں گے

0
38
مفلس ہیں تو، کیا خوش پوش تماشا دیکھیں گے
غربت کا مری ہم دوش تماشا دیکھیں گے؟
جو بولے گا سر اس کے تن سے جدا ہو گا
سب لوگ کھڑے خاموش تماشا دیکھیں گے
جس ظلمتِ رنج سے پتھر دل بھی تڑپ جائیں
اسے دیکھ کے ہم آغوش تماشا دیکھیں گے

0
33
رحمتِ عالم و جاں طرب ﷺ آ گئے
شاہِ لو لاک ﷺ عالی نسب آ گئے
ان سے پہلے زمانہ جہالت میں تھا
مصطفیٰ ﷺ آئے جینے کے ڈھب آ گئے
ربِ کعبہ نے بھیجا نبی جس گھڑی
مشرکینِ حرم جاں بہ لب آگئے

0
40
جب زمیں کے خداؤں سے تنگ آ گئے
ہم ستم آشنا کرنے جنگ آ گئے
اس جفا کار کے ساتھ کچھ دن رہے
تو جفا جوئی کے ہم کو ڈھنگ آ گئے
ہم جہاں سے اکیلے چلے تھے مگر
گور تک چھوڑنے لوگ سنگ آ گئے

0
54
گلِ بہشت کے غم میں نڈھال رہنے دے
تو غم گسار سہی پر ملال رہنے دے
فریبِ زیست غمِ ہست کی نہیں پرواہ
غمِ حسین میں عنقا مثال رہنے دے
زمینِ کرب و بلا مدفنِ شہِ دیں ہے
انہیں کے در مجھے اے ذوالجلال رہنے دے

0
61
گل ہوں چمن ہو اور رنگ و بو ہو
رنگیں فضاؤں میں تو ہی تو ہو
پھر موت مثلِ شالِ طرب ہے
گر عمر مثلِ طوقِ گلو ہو
وہ اشک ریزاں میں بھی تو دیکھوں
جس پل بچھڑنے کی گفتگو ہو

0
59
اڑنے کو پر ایسے پنچھی تول رہا ہے
جیسے کہ ہمراہ غم کا غول رہا ہے
دنیا وہ میخانہ ہے جو فانی ہے لیکن
جس کو بھی دیکھو، نشے میں ڈول رہا ہے
اس کے بیاں میں نجانے سحر تھا کیا تھا
کان میں رس اب تلک جو گھول رہا ہے

0
42
کج خلق کے ترازو میں سب تولنا پڑا
آخر خلافِ طبع مجھے بولنا پڑا
گرچہ محبتوں سے جدا راستہ رہے
اس کو جو دیکھا تو درِ دل کھولنا پڑا
اس خشمگیں نگاہ پہ جس پل نظر پڑی
یارو خودی کو خاک میں تب رولنا پڑا

0
67
اک دشتِ ناگوار شبستان کئے ہوئے
ہم جی رہے ہیں ہجر کو آساں کئے ہوئے
نَے کوئی رازداں نہ کوئی جاں نثار تھا
کیا چلتے داغِ دل کو نمایاں کئے ہوئے
ہونٹوں پہ مسکراہٹوں کا بوجھ لے کے ہم
بیٹھے ہیں آج چشم کو ویراں کئے ہوئے

0
43
نہ کوئی جس کا تھا اس کے والی ہمارے صلّے علٰی رہے ہیں
چمن، بہاریں، ستارے، جگنو انہیں کے مدحت سرا رہے ہیں
پیمبروں میں وہ پیرِ کامل ﷺ جو اولیں بھی ہیں آخری بھی
نبی وہ شمس الضحیٰ ﷺ خدا سے خدا کا پیغام لا رہے ہیں
لعاب سے عین نوری کر دیں جو چشمِ کرّار کو شفا دیں
قمر کے دو ٹکڑے کر دیں ایسے رسول ﷺ معجز نما رہے ہیں

0
41
میں بعدِ فنا بھی بقا چاہتا ہوں
درِ مصطفےٰ ﷺ پر قضا چاہتا ہوں
رہے دل میں آلِ عبا ﷺ کی مودت
سدا لب پہ صلّے علٰی چاہتا ہوں
شہِ انبیاء ﷺ جس شہادت پہ روئے
اسی غم کی شالِ عزا چاہتا ہوں

0
38
تمہاری مرضی ہے لیکن یہ کیا ضروری ہے
کہ آس پاس رہیں اور تمہی کو ہم ترسیں
دلوں کی بستی میں اکثر مکان کچے ہیں
خدایا رحم ہو بادل غموں کے کم برسیں

0
76
اک دل حزیں چمن میں نگیں بانٹنے لگے
ہم پر خوشی تھی تنگ ہَمِیں بانٹنے لگے
دوگز زمین زیرِ زمیں دے کے حاکمین
جاگیر جگ میں اپنے تئیں بانٹنے لگے
اپنے خلاف اٹھتی زباں کاٹنے کے بعد
ان تالوؤں میں نغمۂِ چیں بانٹنے لگے

0
51
اب نہیں نخلِ تمنا صفِ اشجار کے پاس
ما سوا یاس نہیں کچھ دلِ آزار کے پاس
تو بتا اے چَمَنِ عشق قرینہ کیا ہے
اک فداکار پھٹکتا نہیں معیار کے پاس
بل پہ ایمان کے وہ بر سرِ پیکار رہا
ایک بھی باقی نہ تھا تیر کماں دار کے پاس

0
29
اک محروم زمانے بھر کا
سرد ٹھٹرتی ہواؤں میں
رات کی گہری تاریکی میں
تشنہ خوابوں کا ڈھونے بوجھ
ہاتھ میں سگریٹ تھام کے تنہا
گوشہ نشینی چھوڑ کے نکلا

0
40
غمی غمی نہ رہے اور خوشی خوشی نہ رہے
دیے نہ سارے بجھانا کہ روشنی نہ رہے
چمن وہ کیسا کہ جس میں کھلا گلاب نہ ہو
بہار کیسی کہ ڈالی کوئی ہری نہ رہے
جنون کیسا جو کاوش کرے نہ دیوانہ
وہ عشق کیا کہ محبت رہی سہی نہ رہے

0
42
وہ چشم ساحری ہے مری بات مانیے
واللہ ! شاعری ہے مری بات مانیے
وہ جا رہے ہیں وقتِ اجل بس قریب ہے
یہ سانس آخری ہے مری بات مانیے
لپٹے ہوئے ہیں دال میں کالا ضرور ہے
میلان ظاہری ہے مری بات مانیے

0
44
ہجر کی شام اور قہری چپ ہے
دل پہ مسلط گہری چپ ہے
اس کی آنکھیں بول رہی ہیں
بزمِ سخن میں ٹھہری چپ ہے
سب منہ موڑ کے بیٹھے ہوئے ہیں
جانے کیسی زہری چپ ہے

0
50
الزام تھا کہ رات کی بارش ڈبو گئی
پر گاؤں اپنا میر کی سازش ڈبو گئی
ایسا انا پرستی کا ظالم رواج تھا
رشتوں کی ناؤ ایک ہی رنجش ڈبو گئی
اک دستخط سے اہلِ قلم لے اڑے مکان
اک نا سمجھ کو غارتِ دانش ڈبو گئی

0
59
دل سے اپنے شکست کے امکانات نکال
فتح نصیب تو ٹھہرے خوفِ مات نکال
سن دلبر دل کٹتا ہے خاموشی سے
وقت کٹے تُو بات سے کوئی بات نکال
لکھ کے نام مٹائیں بچپن یاد کریں
مشق کریں پھر تختی سیاہی دوات نکال

0
49
کیا دور ہے کہ سیفِ زُباں کھینچنے لگے
اک دوسرے پہ لوگ سِناں کھینچنے لگے
کیا آپ نے کمی کی مری جاں کھپانے میں
دیدہ ورانِ شہر بھی جاں کھینچنے لگے
کیا بھیڑیا صفت تھے وہ انساں کے بھیس میں
بسمل کے جسم سے جو رُواں کھینچنے لگے

0
29
ذہن سے نسلی تعصب حبِ ذات نکال
خاکی رکھ امید یہ کالی رات نکال
سن دلبر دل کٹتا ہے خاموشی سے
وقت کٹے تو بات سے کوئی بات نکال
لکھ کے نام مٹائیں بچپن یاد کریں
مشق کریں پھر تختی سیاہی دوات نکال

0
37
ریت گھروندے خواب نگر کے پس منظر میں رہتے ہیں
جیسے وفا کے خواب جفا سے خوف و خطر میں رہتے ہیں
انسانوں سے کیسا شکوہ جب مری بخت سیاہی سے
خود آسیب بھی سہمے سہمے میرے گھر میں رہتے ہیں
گرچہ ظاہر خوش پیکر ہے با اخلاق دکھائی دوں
بے ایماں ہوں گناہ قد آور دامنِ تر میں رہتے ہیں

0
47
اجڑے دیار سے آہ و بکا جو نہ تخت نشیں تک پہنچے گی
خاک نشیں تک پہنچے گی کسی چشمِ حَزیں تک پہنچے گی
رنج و الم میں ڈوبی صدائیں باسی وسیب کے دیتے رہے
شاہ تلک آواز نہیں تو عرشِ بریں تک پہنچے گی
شہر جلا کر اپنے تئیں اس شخص نے اچھا کام کیا
بچوں کی یہ پکار مگر شہِ دینِ مبیں تک پہنچے گی

0
63
سب کی اپنی اپنی منطق اور حوالہ کوئی نہیں تھا
جو کہ زبانوں پر لگ جائے ایسا تالا کوئی نہیں تھا
دور تلک بسمل کا شاید دیکھا بھالا کوئی نہیں تھا
یا پھر ظلم کی رسمیں سِدْویؔ توڑنے والا کوئی نہیں تھا
زہر اگلتے لہجوں کی اک رسم عجب تو نے ڈالی ہے
لاش پڑی تھی قاتل بھی تھا قتل کا آلا کوئی نہیں تھا

0
30
تری چوڑیوں کی کھنک لے چلے
مجھے تیرے کوچے کسک لے چلے
رواں زندگی ہے چلے جاتے ہیں
ہمیں جس طرف یہ سڑک لے چلے
لگا جس کا داؤ زمیں چھین لی
مرے آسماں سے دھنک لے چلے

0
99
اگر پنجتن کی اطاعت نہیں ہے
کبھی ملنی تم کو شفاعت نہیں ہے
بزرگی میں ان کی یہ تطہیر اتری
کسی اور کی یہ فضیلت نہیں ہے
ہمیں زیر کر لے منافق جہاں میں
ابھی اس میں اتنی بھی جرأت نہیں ہے

0
47
بلند اس قدر ہے مقامِ شہِ دیں
ہر اک معتبر ہے غلامِ شہِ دیں
بقائے نظامِ شریعت کی خاطر
ہوا کربلا میں قیامِ شہِ دیں
بلاغت وہ شبیر کی حر سے پوچھو
بہت پر اثر تھا کلامِ شہِ دیں

0
74
راہ گزارِ عشق میں نیک شعار ہو گیا
سِدْویؔ جو راہِ حق چلا کوہِ وقار ہو گیا
شہر نشیں سبھی جسے شہرِ خموشاں کہتے ہیں
باغی کے واسطے وہی جائے قرار ہو گیا
گنجِ شعور الجھے ہیں حرفِ غلط نہ ہو کہیں
شعر و ادب میں نا سمجھ زود نگار ہو گیا

0
33
تشنہ لب آب رساں کو نہ پکار
گل ہے تُو مشک فشاں کو نہ پکار
خوشبوئے زلفِ صنم کے طالب
آج اس آفتِ جاں کو نہ پکار
بیج نفرت کا جہاں میں بو کر
شرِّ بد شہرِ اماں کو نہ پکار

0
50
توضیح کے مرید نہ ایجاز کے اسیر
ہم تو ہیں صرف آپ کی آواز کے اسیر
ہر لمحہ خوف رہتا ہے افشائے راز کا
ہم راز دے کے ہو گئے ہم راز کے اسیر
بڑھتی رہیں گو راہ میں طوفاں کی سختیاں
روکے رکے نہ طاقتِ پرواز کے اسیر

0
28
یہ عتابِ آرزو ہے گھڑی چین کی نہیں ہے
گو ہزار جستجو کی پہ خوشی ملی نہیں ہے
کوئی آس لوٹنے کی گو صنم نے دی نہیں ہے
نہ جب انتظار ہوتا کوئی شام بھی نہیں ہے
یہ مقامِ ہو نہیں گر تو ہے دل گرفتگی کیا
ہے وجود نفسی اور کیا؟ جو فرامشی نہیں ہے

0
51
حیاتِ فانی کو جو پل صراط دیکھیں گے
وہ روزِ حشر میں بس انبساط دیکھیں گے
ہزار حیلے بہانوں کا سلسلہ ہو گا
گر آزما کے کبھی ہم رباط دیکھیں گے
حیات و مرگ کا رن میں ہی فیصلہ ہو گا
حریف اپنی ہم اپنی بساط دیکھیں گے

0
46
اک خبر سن کے سینہ چھلنی ہے
چشم نمناک، دل پریشاں ہے
ایک مفلس غریب فاقہ کش
گھر کا واحد کفیل چارہ گر
جس کے کندھوں پہ بوجھ بچوں کا
سستا راشن جو لینے آیا تھا

0
31
آئے قضا ، دامِ ہست و بود سے نکلوں
ہجر کے طاری عدم جمود سے نکلوں
کنجِ قفس چھوڑ کے دل اپنا ہو آزاد
رنج و الم کی اگر قیود سے نکلوں
باندھ گیا ہے وفا کی ڈور سے مجھ کو
کیسے بتا میں تری حدود سے نکلوں

0
39
ظلم پر آپ چوں نہیں کرتے
آبرو ہو تو یوں نہیں کرتے
شَجَرِ خلد کے طلبگاران
جبر پر سر نگوں نہیں کرتے
کچھ تو اوروں کے واسطے بھی چھوڑ
رزق سب کا دروں نہیں کرتے

0
39
مثلِ مہتاب دیکھتے ہیں مجھے
نقش بر آب دیکھتے ہیں مجھے
ہوش والے نشے میں ہیں مدہوش
غرق مے ناب دیکھتے ہیں مجھے
آتشِ غم میں جل رہا ہوں مگر
لوگ غرقاب دیکھتے ہیں مجھے

0
50
شعر میں بھی غلو نہیں کرتے
ہم عبث گفتگو نہیں کرتے
غم ہمیں راس آ گیا جب سے
چاک دل کو رفو نہیں کرتے
عشق جس سے ہو دور ہو جائے
اس کو بے آبرو نہیں کرتے

0
63
منتظر کوئی نہ ہو تاک میں تنہائی ہو
ایسا گھر ہم کو نہ بازار نہ گھر لگتا ہے

0
53
اک الاؤ تھا ان کے سینوں میں
چاند جیسی چمک جبینوں میں
مثلِ خورشید مثلِ رحمت تھے
باپ اور ماں ، بلند بینوں میں
جب سے مادر پدر نے اوڑھی ہے
خاک لگنے لگی خزینوں میں

0
48
سانپ وہ پالے آستینوں میں
زہر وافر تھا جن کمینوں میں
قوم افلاس میں گھری ہے اور
قیصری ٹھاٹ شہ نشینوں میں
کجروی، بے حسی، حوادثِ عمر
بس یہی آج ہے زمینوں میں

0
67
تمہاری پلکوں سے ایک آنسو ہتھیلی پر جو ٹپک پڑا ہے
کمال الفت کا کھیل کھیلا بہانہ اس پر غضب گھڑا ہے
ابھی محبت کے راستے پر تم اک مسافر نئے نئے ہو
یہ راستے میں پتہ چلے گا کہ کون ثابت قدم کھڑا ہے
ہزاروں کو تم نے مات دی ہے رجز پڑھا جاندار تم نے
مگر مرے جیسے سر پھرے سے تمہارا پالا کہاں پڑا ہے

0
65
جہاں پہ جاں کا تقاضا ہو جان دیتا ہوں
میں دوستوں کو اسی طرح مان دیتا ہوں
شبِ سیاہ میں جس پل مجھے پکارو گے
ہمیشہ ساتھ ملوں گا زبان دیتا ہوں
جلا کے راکھ کئے ہیں تمہی نے کھیت مرے
مرا ہی ظرف ہے تم کو " لگان " دیتا ہوں

0
46
بہت نصیب ور ہے تو ، ترا حساب ہو گیا
غلامِ شاہِ دو جہاں ﷺ تو کامیاب ہو گیا
نبی ﷺ کے در کا قصد تو اکیلے ہی کیا مگر
قدم اٹھے تو قافلہ بھی ہم رکاب ہو گیا
اخوتِ محمدی ﷺ کا رنگ ہے فرنگ میں
جو چپقلش سے مومنوں کی آب آب ہو گیا

0
49
میں مدارِ عمر سے جا چکا مرے نوحہ گر نہ اداس ہو
مجھے یاد کر کے تو بن سنور ، مرے ہمسفر نہ اداس ہو
یہ مفارقت تو قبول کر جو نصیب میں ہے لکھی گئی
تو دعاؤں میں مجھے یاد رکھ نہ تو آہیں بھر نہ اداس ہو
جو چلا گیا اسے دے دعا جو ملا ہے اس کو عزیز رکھ
یہ خلا بھرے نہ بھرے صنم مری مرگ پر نہ اداس ہو

0
56
ظلم کے خلاف تھا لوگ دیکھتے رہے
اک نہیں تھا ہمنوا لوگ دیکھتے رہے
بزدلوں کے درمیاں ایک شخص تھا نڈر
لڑتے لڑتے مر گیا لوگ دیکھتے رہے
لوگ پوچھنے لگے پانی کتنا گہرا ہے
کوئی ڈوبتا رہا لوگ دیکھتے رہے

0
55
شجر پر سانپ جب آنے لگے ہیں
تو پنچھی شاخ سے جانے لگے ہیں
تمھیں بھی عشق نے رسوا کیا ہے
ہمیں بھی روگ تڑپانے لگے ہیں
رچایا کھیل ایسا مفلسی نے
کئی اک لوگ کترانے لگے ہیں

0
58
قندیل جلانے میں ہمیں وقت لگے گا
غم تیرا بھلانے میں ہمیں وقت لگے گا
آواز نہ دو، ہم ہیں شبِ غم کے مسافر
اب لوٹ کے آنے میں ہمیں وقت لگے گا
اک عمر دکھی دل میں قیام اس نے کیا ہے
اس بت کو گرانے میں ہمیں وقت لگے گا

0
43
جانِ ادا صبر آزما تو رہا ہوں
بوجھ ترے ہجر کا اٹھا تو رہا ہوں
کر نہ یہ زحمت ، قریب وقتِ نزع ہے
کیوں تو نکالے مجھے میں جا تو رہا ہوں
چھوڑ دے عیش و نشاط تو نے کہا تھا
شالِ عزا اوڑھے ، مسکرا تو رہا ہوں

0
40
بخت سیا، دھند آس پاس بہت ہے
بعد ترے شب گھڑی اداس بہت ہے
گرچہ جفا کار دھوکہ باز ہے لیکن
لہجے میں اس شخص کے مٹھاس بہت ہے
شہر بدر ہوں میں مثلِ دشت نورداں
رستہ بیاباں ہے بھوک پیاس بہت ہے

0
69
ہمارے حصے میں دو گز نہ گر زمیں آئے
تو عدلِ میر پہ کیا ہم کو پھر یقیں آئے
تمھی نہ آئے کہ مصروفیت بہانا تھی
مزاج پرسی کو انجان دل حزیں آئے
نہ دشمنی کا سلیقہ حریف کو آیا
نہ الفتوں کو نبھانے کے ہی قریں آئے

0
54
محبتوں کا رواج ڈالو، پلٹ دو رسمِ منافرت کو
عداوتیں دل سے نوچ ڈالو فروغ دو تم مصاحبت کو
تمھیں مناسب نہیں عزیزو ادھر کی باتیں ادھر جا کرنا
خدا کو مانو تو ترک کر دو کسی کی غیبت مخالفت کو
کسی کی جب تم مدد کرو گے خدا تمھاری مدد کرے گا
معاونت سے چمن سجاؤ زمیں میں گاڑو مخاصمت کو

0
50
اس رات کو ڈھلنے میں زرا وقت لگے گا
آفات کے ٹلنے میں زرا وقت لگے گا
اک شعلۂِ الفت سے پگھلنے کے نہیں ہم
اے شمع پگھلنے میں زرا وقت لگے گا
کچھ وقت سے مانوس برا وقت ہوا ہے
یہ وقت بدلنے میں زرا وقت لگے گا

0
50
چشم التفات کا التہاب رکھ دیا
تو نے میرے ہاتھ پر آفتاب رکھ دیا
اس غریب خانے میں دو گھڑی رکا مگر
بسترِ فراق پر اک گلاب رکھ دیا
چشمِ نیم خواب میں سپنے سو سجا دئے
کیوں کسی کی آنکھ میں اضطراب رکھ دیا

0
54
ظلم جب پھول پھل گیا لوگو
خاک چہروں پہ مل گیا لوگو
شاہ نے چار سکے کیا پھینکے
سب کا ایماں پھسل گیا لوگو
آہِ مظلوم پر نہ تم پگھلے
گرچہ پتھر پگھل گیا لوگو

0
59
چاند راتیں اداس کرتی ہیں
عشق باتیں اداس کرتی ہیں
تجھ کو کھونے کا خوف ہے اس کو
دل کی ماتیں اداس کرتی ہیں
تازیانہ سا خلوتی پر ہے
یہ براتیں اداس کرتی ہیں

0
48
اک لُغَت اپنی کہ جس میں صلح جُو ہے محترم
اور تری فرہنگ میں اک زشت خُو ہے محترم
عشق آخر کیوں کریں بدنامیوں کا خدشہ ہے
آبرو داروں کو تو بس آبرو ہے محترم
پر فتن یہ دور ہے ہر شخص میں فرعون ہے
جو بھی ان سے بچ گیا وہ سرخرو ہے محترم

0
42
پنج تن کے شہر کی یہ مشک بو ہے محترم
مومنو ! آلِ نبی ﷺ کی گفتگو ہے محترم
فاسق و فاجر منافق کیلئے پھٹکار ہے
ہر مودت رکھنے والا سرخرو ہے محترم
آخری دم تک خدا کے رحم پر ایمان ہے
لا تَخَف حسنِ تخیل تا گُلُو ہے محترم

0
75
سنا ہے لوٹ کے وہ شخص آ رہا ہے پھر
غموں کی یعنی وہ سوغات لا رہا ہے پھر
کِواڑ برسوں تلک بند تھے صنم جس کے
درونِ دل کا وہ دروازہ وا ہوا ہے پھر
کیا ہے اس کو شمار آبرو خرابوں میں
یہ باندھی لوگوں نے بد ذات افترا ہے پھر

0
45
تنک مزاج سخن ساز فتنہ خیز
صنم ہمارا دغا باز فتنہ خیز
سخن کا سحر سماعت پہ چھا گیا
کہ ہے خطیب کا انداز فتنہ خیز
اڑان بھرنے لگے ہیں جو عشق کی
پروں کی حسرتِ پرواز فتنہ خیز

0
47
یہ دعا ہے ربِ کریم سے کہ وہ رحمتوں کا نزول ہو
تو جسے پسند کرے ملے جو دعا کرے وہ قبول ہو
اسی مد و جزر میں موجزن ہے سبق عروج و زوال کا
نہ خوشی میں غم کو بھلا صنم نہ زیاں پہ اپنے ملول ہو
وہ اڑان بھر کہ قفس قفس تری ہمتوں کی مثال دے
جو ہیں بیڑیاں وہ اتار دے تو شجاعتوں کا اصول ہو

0
90
العجب اس شہر میں بے یار نہ تھا
دوست مگر کوئی وفادار نہ تھا
اپنے گریباں کے نگہباں تھے، ہمَیں
آئنہ اغیار کا درکار نہ تھا
چاند کا ہر رنگ شکستہ ہو گیا
وہ رخِ زیبا سے چمکدار نہ تھا

0
39
جنگ میں احباب مرے ساتھ چلیں
ہونے ظفر یاب مرے ساتھ چلیں
آپ کہاں؟ آپ کو تو جاں ہے عزیز
موت کے بیتاب مرے ساتھ چلیں
از سرِ نو شہر کو تعمیر کریں
گوہرِ نایاب مرے ساتھ چلیں

0
51
چار گھڑی کے عشق کا بھاری مزا پڑا مجھے
جس کا خراج تا حیات کرنا ادا پڑا مجھے
اہلِ وفا ہوں مان لوں ، اہلِ جفا کو رہنما؟
تو نے سمجھ لیا ہے کیا کوئی گرا پڑا مجھے
اس کی گلی میں انبساط برسوں میں ڈھونڈتا رہا
رنج و الم قیاس کے بدلے میں آ پڑا مجھے

0
40
چبھنے لگی ہے خار سی ، رو رو کے دل دہائی دے
اپنی حیاتی وار دوں پھر سے جو ماں دکھائی دے
سایہ نہ باپ کا رہا ، جینا وبال ہو گیا
حد سے زیادہ بڑھ گیا رنج و الم رہائی دے
قدموں میں ان کے بیٹھنے کا وہ سکوں چلا گیا
ان کے بغیر رات دن کچھ نہ مجھے سجھائی دے

0
41
ہمیں ملے کوئی مضطرب بات تب کریں گے
عجب ہیں لوگو، تو گفتگو بھی عجب کریں گے
نہ خود رکھیں گے نہ ہم کو سونپیں گے دل ہمارا
حسین چہرے حضور بس بے طرب کریں گے
یہ طے کیا ہے، تری گلی سے، گزر نہ ہو گا
انا پرستی میں ہم خسارہ غضب کریں گے

0
66
محبتوں میں ملاوٹیں بے حذر کریں گے
عزیز اپنے اِدھر کی باتیں اُدھر کریں گے
یہ تیر ترچھی نظر کے اپنی سنبھال لے تو
مرے علاوہ ہر ایک دل پر اثر کریں گے
پلک پہ اپنی بٹھائیں ان پر حیات واریں
مگر بشر ہیں تو یہ ہمیشہ مفر کریں گے

0
50
مظلوم تھا جو دامِ ستم کار میں آیا
نام اپنا ترے خبطی پرستار میں آیا
انداز ، لب و لہجہ ، خمِ ابرو ، ادائیں
ہر فخر جدا قامتِ دلدار میں آیا
اک گل بھی نہیں ، پیڑ ثمر بار نہیں ہے
دم ہم کو اسی حلقۂِ اشجار میں آیا

0
48
رخِ حیات کے جلوے قدم بڑھا کے دیکھ
ملے گی راحتِ دل بھی تو مسکرا کے دیکھ
ہر ایک نقشِ کفِ پا ہوا ہے نوحہ کناں
پلٹ کے نالے کبھی سن چمن عزا کے دیکھ
زمینِ دل پہ تمناؤں کا ہے قبرستان
مری تلاش میں ان راستوں پہ آ کے دیکھ

0
41
زمیں کی جانب خمیدہ عرشِ بریں ہوا ہے
کہ ریگِ کربل پہ سجدہ دوشِ جبیں ہوا ہے
وہ والئِ کل ہے، مظہرِ نورِ مصطفٰی ﷺ بھی
امام عالی مقامٔ ایسا نہیں ہوا ہے
لہو سے ظلمت کے سائے جگ سے مٹانے والا
وہ راہِ حق میں چراغ صد آفریں ہوا ہے

0
51
حزیں ہوں وقت کی دیمک نہ چاٹ لے مجھ کو
سو آستیں میں چھپے سانپ کاٹ لے مجھ کو
دلوں میں زندہ رہوں گا میں انقلابی ہوں
شبابِ مرگ بھلے اپنے گھاٹ لے مجھ کو

0
47
چند سیال صداؤں نے مرا ساتھ دیا
بے شبہ ماں کی دعاؤں نے مرا ساتھ دیا
بال و پر کاٹے گئی شب نے سحر دم میرے
اس تھکاوٹ میں ہواؤں نے مرا ساتھ دیا
کاوشِ حسنِ عمل جیت میں پیہم تھی مگر
دشمنوں کی بھی خطاؤں نے مرا ساتھ دیا

0
45
کسی سے رقابت نہیں ہے نہ ہو گی
یہ مجھ میں بری لت نہیں ہے نہ ہو گی
تجھے چاہتوں کا صلہ چاہئے پر
محبت تجارت نہیں ہے نہ ہو گی
نمک پاشی زخموں پہ کرتا رہا وہ
منافق کو الفت نہیں ہے نہ ہو گی

0
55
وہ جو نفرت کا بیج بوتا ہے
کتنا بد بخت شخص ہوتا ہے
وہ خوشی بانٹتا ہے لوگوں میں
جس کے شعروں پہ میر روتا ہے
اس کو بوجھل کریں نہ خواب ترے
خوف سے رات بھر نہ سوتا ہے

0
60
رخ بے وفا کے شہر کی جانب ہے کیا ہنوز
سِدْویؔ مدارِ عشق وہ کاذب ہے کیا ہنوز
میں بے رخوں کی بزم کو چھوڑ آیا دوستو
انداز میرا غیر مناسب ہے کیا ہنو
جو مفلسی کی بھینٹ چڑھا، دام قبر کا
اس کے لواحقین پہ واجب ہے کیا ہنوز

0
48
ایک سلطان کی قیصری روٹی
کتنے مفلس نگل چکی روٹی
ہائے جابر کی بےحسی میں ہے
ظلم و جبروت دوسری روٹی
پیٹ بھرنے کا کھیل ہے سارا
فلسفہ سب پڑھا گئی روٹی

0
53
نا سمجھ! مت سمجھ تو ہی تو آج ہے
اپنی بھی شہر میں آبرو آج ہے
قحط پڑنے لگا ہے خوشی کا یہاں
میری جاں شاخِ دل بے نمو آج ہے
سرد مہری کی ایسی ہوائیں چلیں
صلح جو شخص بھی زشت خو آج ہے

0
46
اے نور فشاں ! اذن قریں ہے کہ نہیں ہے
اس شب کی سحر پاس کہیں ہے کہ نہیں ہے
ایمان ترا کیوں مُتَزَلزل ہے سفر میں
منزل پہ پہنچنے کا یقیں ہے کہ نہیں ہے
دل اس کی محبت میں گرفتار ہے لیکن
وہ شخص محبت کا امیں ہے کہ نہیں ہے

0
45
موت سے اور نہ تلوار سے ڈر لگتا ہے
پر ہمیں یار کی یلغار سے ڈر لگتا ہے
ایک امید ہو بچوں کو کہ پھل لاؤں گا
جیب خالی ہو تو افطار سے ڈر لگتا ہے
تیری رحمت کے خزانوں میں کمی گرچہ نہیں
جگ کے غاصب سے نگہدار سے ڈر لگتا ہے

0
46
کیسی الجھن نے مرا ذہن جکڑ رکھا ہے
آس کا سر ہے جدا یاس کا دھڑ رکھا ہے
کچھ صدائیں ہیں جو آگے نہیں بڑھنے دیتیں
تیری چوکھٹ نے مرا پاؤں پکڑ رکھا ہے
بت شکن تم بھی نہیں دل کے صنم خانے میں
اک تراشے ہوئے پتھر کو رگڑ رکھا ہے

0
44
یادِ ماضی کو بلا خوف و خطر رکھا ہے
عشق نے تیرے سیہ چشم کو تر رکھا ہے
اے خدا شکوہ نہیں تیری ہے تقسیم مگر
کیسے لوگوں کا ہمیں دست نگر رکھا ہے
عالمِ جذب میں اشراق اگر تیرا نہیں
کس نے پھر ہاتھ مرے ہاتھ پہ دھر رکھا ہے

0
37
نَے عشق اور نہ جوشِ جنوں نے کمال کیا
رب کی صدائے کُن فَیَکوں نے کمال کیا
تدبیروں سے کوئی نہیں جب حل نکلا
پائے خرد میں عقلِ زبوں نے کمال کیا
ہوش خرد سے بیگانہ اب نیند میں ہوں
دن کی تھکن پر ضربِ سکوں نے کمال کیا

0
36
دل پر چوٹ لگانے والے شاد رہیں
یعنی چھوڑ کے جانے والے شاد رہیں
ہم کو میسر ہو جائیں امکان نہیں
تیرا دل بہلانے والے شاد رہیں
اکتائے سے پھرتے تھے ہم ویسے بھی
موت کی نیند سلانے والے شاد رہیں

0
44
چند سکوں پہ جہاں اہلِ قلم بکتے ہیں
ہاتھ کے ہاتھ وہاں ظلم و ستم بکتے ہیں
بندگی ایک دکھاوا ہے صنم خانوں میں
جسم تو جسم یہاں شیخِ حرم بکتے ہیں
پوچھا جب لوگوں سے "کیا بکتے ہیں ایمان یہاں"
یک زباں ہو کے کہا "رب کی قسم بکتے ہیں"

0
80
درد غربت کا رعایا کی انہیں دوڑا ہے
یا مفادات میں حکام نے سر جوڑا ہے
جس محبت کا وہ رکھنے کو بھرم کہتے ہیں
اس محبت کے بھرم نے ہی بھرم توڑا ہے
جس گھڑی لگتا تھا حالات بدل جائیں گے
ان ہی حالات میں حالات نے رخ موڑا ہے

0
86
بروزِ حشر نہیں ہوں گے لب تصرف میں
تمہیں گماں ہے کہ ہو گا طرب تصرف میں
نجانے کون سی مٹی سے یہ خمیر اٹھا
نہیں کسی کے حسب اور نسب تصرف میں
قضا و قدر میں پل موت کا مقرر ہے
سحر نہ شام نہ دن اور شب تصرف میں

0
203
چلن فریب کا یا رب سمجھ نہیں پائے
ہم اس کے شہر کا مکتب سمجھ نہیں پائے
ہمی نے اس میں وفاؤں کو دین سمجھا تھا
جفا گری بھی ہے مذہب سمجھ نہیں پائے
تجھے بھی عشق ہے اتنا سمجھ میں آیا تھا
ترے اشارے مگر سب سمجھ نہیں پائے

0
37
دل! نفس کے غلام کو دل سے نکال کر
رکھ رخشِ بے لگام کو دل سے نکال کر
شاید ہو باقی تیری دعاؤں میں کچھ اثر
رکھ حاجتِ نیام کو دل سے نکال کر
رہتا نہیں وجود بھی باقی وجود میں
اس کربِ ناتمام کو دل سے نکال کر

0
47
لوگ کہتے ہیں کہ افلاس نے دم توڑ دیا
ان کے سلطان نے مہنگائی کا سر پھوڑ دیا
بھوکے سہ روزہ شکم سیر ہوئے جلسے میں
ایک معصوم کی اس بات نے جھنجھوڑ دیا
سرِ محفل مجھے الزام دغا دیتے رہے
خود پہ بات آئی تو پھر بات کا رخ موڑ دیا

0
51
محبت ہے دل لگی ہے دغابازیاں بھی ہیں
مرے یار کی سرشت میں دلداریاں بھی ہیں
غلط فہمی صرف ہم کو نہ تھی وہ گلاب ہے
اسی کے مغالطے میں کئی تتلیاں بھی ہیں
ضروری نہیں کہ رات کی بےخوابیاں ہی ہوں
نہاں الفتوں کے کھیل میں رسوائیاں بھی ہیں

0
87
رکئے سنبھل کے سانپ سے بل لٹ کے دیکھیے
اب کے جمالِ یار زرا ہٹ کے دیکھیے
ممکن ہے کوئی چال ہو یا کوئی جال ہو
پوشیدہ راز کیا ہیں سجاوٹ کے دیکھیے
اسباق دل لگی کے ہیں گر یاد آپ کو
رسمِ وفا کے باب کبھی رٹ کے دیکھیے

0
144
غبارِ شکست چھٹنے لگا یہ کس کی دعا نے رنگ بھرا
حیات سے اپنی رنگ اڑا تو فضلِ خدا نے رنگ بھرا
طلوعِ سحر سے شام تلک عروج و زوال ساتھ چلے
نشاط کا رنگ اڑنے لگا تو شالِ عزا نے رنگ بھرا
حبیب جو تو نے چھین لیا تھا دستِ لقا سے رنگِ حنا
نہ قوسِ قزح ہی اس پہ چڑھا نہ سحرِ وفا نے رنگ بھرا

0
50
آستیں جھاڑ کے چھپے سانپ کچلنے دے ہمیں
دشمنوں سے بھی نمٹیں گے گِر کے سنبھلنے دے ہمیں
آتشِ عشق سے ملا ہے غمِ یار کا سراغ
راحتِ جاں یہی ہے اس آگ میں جلنے دے ہمیں
بیچ سفر میں آبلہ پائی کا ڈر نہیں ہے ٹھیک
آس نہ چھوڑ دل کٹھن راہ پہ چلنے دے ہمیں

0
51
جان کیا ہے عشق میں ہر زیاں قبول ہے
یہ بھی اے حریمِ جاں امتحاں قبول ہے
خوف کیا ممات کا؟ ساتھ تو اگر رہے
بر زمینِ دل فغاں ہم عناں قبول ہے
کون جانتا ہے کب زندگی دغا کرے
آج جینے دیجئے کل فغاں قبول ہے

0
54
جامِ جم نہ بادۂِ احمریں قبول ہے
وہ پلائے زہر بھی آتشیں قبول ہے
کشمکش میں ذہن و دل، عشق ہے وبالِ جان
مضطرب ہوں کیا کہوں؟ ہاں، نہیں، قبول ہے
مہ جبیں کی دل فریب ہر ادائے ناز پر
لذتِ فراق بھی پیش بیں قبول ہے

0
52
نبی ﷺ عدن ہیں تو باغِ عدن بتولٔ و علیٔ
گلِ بہشت حسینٔ و حسنٔ بتولٔ و علیٔ
وہ نورِ عینِ رسالت ﷺ وہ ماہتاب کے مثل
ہیں آفتاب نبی ﷺ تو کرن بتولٔ و علیٔ
وہ جن کو چادرِ تطہیر میں نبی ﷺ نے لیا
وہ پاک باز کہ ہیں طینتاً بتولٔ و علیٔ

0
36
دریا سمجھ رہے ہو سمندر ہے، اک قفس
شب زاد غم کی شام، برابر ہے اک قفس
آزاد ہوں میں مجھ کو غلامی نہیں قبول
سر کو جھکائے رکھنے سے بہتر ہے اک قفس
ذہنی اسیر پا کے رہائی کریں گے کیا؟
کم فہم بزدلوں کا مقدر ہے اک قفس

0
47
اغیار کا قبول ہے میرا سلام رد
بدنام مسندوں پہ ہیں اور نیک نام رد
کیسی یہ دل لگی ہے کہاں کا یہ عشق ہے
دشمن تو محترم ہے ، مرا احترام رد
اس واسطے کیا ہی نہیں اہتمامِ عشق
محبوب کر نہ جائے سبھی انصرام رد

0
48
ظلم پر آپ چوں نہیں کرتے
آبرو ہو تو یوں نہیں کرتے
شَجَرِ خُلْد کے طلبگاران
جبر پر سر نگوں نہیں کرتے
کچھ تو اوروں کے واسطے بھی چھوڑ
رزق سب کا دروں نہیں کرتے

0
46
ماں باپ کے وجود سے لگتا تھا عید ہے
اب تو لگے کہ زیست مری بے نوید ہے
خاکِ لحد میں نکہتِ بیزی ہے دونوں سے
اس دامنِ چمن میں نہ گل ہے نہ دید ہے
شفقت بھی سخت لہجے کے رہتی تھی پشت پر
روزِ سعید بعد پدر کے بعید ہے

0
111
اپنی راحت تمام کر دی ہے
تم پہ چاہت تمام کر دی ہے
جاؤ تم کو یہ سلطنت بخشی
بادشاہت تمام کر دی ہے
مشورہ ہے کہ عشق مت کرنا
ہم نے حجت تمام کر دی ہے

0
60
اب نہ آئیں گے، خبر دار! نہیں آئیں گے
ہم ترے ہاتھ میں اس بار نہیں آئیں گے
اس کی مسکان ہے پھندہ جو کسے جاتا ہے
جال میں اس کے سمجھدار نہیں آئیں گے
دفعتاً ان کی طلب بڑھتے ہی خیال آیا
قرض لوٹانے خریدار نہیں آئیں گے

0
66
نزولِ آیتِ تطہیر کو نہیں سمجھے
اگر تفکرِ شبیرٔ کو نہیں سمجھے
دلوں میں جن کے نفاقِ رسول و آل ﷺ رہا
وہ حکمِ ربی کی تفسیر کو نہیں سمجھے
درِ بتولٔ کی تکریم جن سے ہو نہ سکی
عدن کے باغ کی جاگیر کو نہیں سمجھے

0
120
تیری آغوش میں جو ہوتا تھا
ماں میں بےخوف روز سوتا تھا
اک ترا غم ہے جس پہ روتا ہوں
کیا کبھی تیرے ہوتے روتا تھا
تجھ کو معلوم ہے میں تھا مضبوط
غم سبھی خامشی سے ڈھوتا تھا

0
55
خاک میں دفن ہے طرب میرا
ماں نہیں قبر میں ہے سب میرا
رات دن اس کو ڈھونڈتے رہنا
اک یہی مشغلہ ہے اب میرا
کوئی کہتا نہیں سدھر جاؤ
جیسے روٹھا ہو مجھ سے رب میرا

0
46
نعت میں ہے نکہتوں کا تذکرہ
اور نبی ﷺ کی چاہتوں کا تذکرہ
صٓ اور اللیل و الاخلاص میں
ہر عطا کا نعمتوں کا تذکرہ
آدمٔ و داؤدٔ و ابراہیمٔ اور
مصطفیٰ ﷺ کی عظمتوں کا تذکرہ

0
48
جو ہے منع، کیسے جائز ہے تجھے؟ شریح سمجھا
میں نے سمجھا ہے غلط، تَو تُو مجھے صحیح سمجھا
جو مرا ہے ، وہ خدا تَو رگِ جاں سے بھی قریں ہے
تُو جو رکھتا ہے نہاں مجھ پہ کھلے، صریح سمجھا
جو غلیظ تر ہے، کیا ہے؟ وہ کسی شقی کا دل ہے
جو عظیم تر ہے، کیا ہے؟ مجھے تو فصیح سمجھا

0
54
محبت میں جنہیں ہم احتراماً دیکھتے ہیں
انہی چہروں پہ طاری اجنبی پن دیکھتے ہیں
چمن مہکا ہوا تھا زرد پتے بھی ہرے تھے
بنا ماں باپ کے اجڑا نشیمن دیکھتے ہیں
یہ کیسی بدعت و غارت گری کا کھیل کھیلا
حرم کے حکمراں کو سامری فن دیکھتے ہیں

0
34
اک مسئلہ ہے کوئی جسے حل نہ کر سکا
اس زیست کو بیان مفصل نہ کر سکا
عیبوں کی پردہ پوشی مسلسل نہ ہو سکی
دل میں وہ شخص راز مقفل نہ کر سکا
دکھ ایسے شخص کا ظن و تخمین کر کے دیکھ
پل ہجر کا جو آنکھوں سے اوجھل نہ کر سکا

0
65
اب تو ملتے بھی نہیں یار کہاں ہوتے ہو
کس جگہ لگتے ہیں دربار کہاں ہوتے ہو
ایک مدت سے کوئی فلم نہیں دیکھی دوست
دنیا کے آخری فنکار کہاں ہوتے ہو
ہر کسی سے مری خاطر تم الجھ جاتے تھے
خود سے ہی آج ہے تکرار کہاں ہوتے ہو

0
76
جس چھت تلے گزرا ہے لڑکپن یہی تو ہے
ہم دونوں جہاں کھیلے تھے آنگن یہی تو ہے
بن تیرے مری کیسے بھلا رات کٹے گی
بڑھتی ہوئی بے نام سی الجھن یہی تو ہے
اب درج ترا نام عبارت میں نہیں دیکھ
شعروں میں نئی بات نیا پن یہی تو ہے

0
96
ہم کو لگا کہ شہر مٹانے گھٹا اٹھی
رب کا کرم کہ چشمِ زدن میں بلا ٹلی
ہر شخص دھوکہ باز تھا ہر شخص بد لحاظ
صد شکر تجھ سے شہر میں رسمِ وفا چلی
انساں کی گر عطا میں خدائی کا زعم ہو
ایسی سخاوتوں سے ہے اچھی گدا گری

0
75
اجڑ گیا محل سرا تو کیا ہوا
مکینِ دل چلا گیا تو کیا ہوا
میں حیلہ گر فریب ساز شہر میں
برے کے ساتھ ہوں برا تو کیا ہوا
گل اس کی زلف میں سجا ہوا تو ہے
وہ شاخ سے بچھڑ گیا تو کیا ہوا

0
104
نَے محبت نہ کج ادائی ہے
تیری کیسی یہ دلربائی ہے
زندگی ! تیرا قہقہہ سن کر
موت چپکے سے مسکرائی ہے
کر رہے ہیں سنی سنائی بات
دکھتا ہے جو پہاڑ ، رائی ہے

0
90
گرچہ لفظوں میں کم ہے غم صاحب
اس کی باتوں میں تو ہے دم صاحب
آپ جائیں تو جان جاتی ہے
فاصلے کیجئے سو کم صاحب
اب نہ لوٹیں گے ہم نے سوچا تھا
پھر وہیں آ رکے قدم صاحب

0
126
شمعِ خاوری پیکر پیرِ کاملاں آئے
تیرگی مٹانے کو شاہِ کل زماں آئے
ذکرِ مصطفٰی ﷺ سے ہی بزمِ دل فروزاں ہے
عاشقوں کی محفل میں فخرِ عاشقاں آئے
یہ سفر محمد ﷺ کا مومنو مبارک ہو
ذوالجلال سے ملنے جب وہ لامکاں آئے

0
120
ہم وطن کی مٹی کو اپنا دے لہو آئے
کارزار سے یعنی ہو کے سرخرو آئے
راہ میں ترے جیسے چاہے خوب رو آئیں
پلکیں واں بچھائیں گے جس ڈگر سے تو آئے
ننگ تا گلو لے کر ، طوقِ آرزو پہنے
کوئے یار میں بے تاب کرنے گفتگو آئے

0
76
بجھ سکے نہ ماند ہو میں وہ التہاب ہوں
دوستو میں برسوں سے برسرِ عتاب ہوں
فخرِ ماہتاب ہوں مثلِ آفتاب ہوں
سِدْویؔ ظلم کے خلاف ایک انقلاب ہوں
غرقِ گرد ہوں تہِ خاک ڈھونڈیئے مجھے
طاق میں پڑی ہوئی بند اک کتاب ہوں

0
68
نفرتوں سے الفتوں کا سفر عجیب ہے
چھٹتی ہیں سیاہیاں صبح عنقریب ہے
کیا اسے دلیل دیں اس سے بات کیا کریں
منصبی غرور میں مبتلا خطیب ہے
ایک شخص کَل تلک کُل متاعِ زیست تھا
بات تو مہیب ہے آج وہ رقیب ہے

0
73
ماں باپ کی سب دلاریاں ہیں
یہ دخترِ نیک ساریاں ہیں
مہتاب کے جیسی بیٹیاں سب
اک رحمتِ ربی پیاریاں ہیں
دامن پہ نہ ان کے حرف آئے
یہ پاک نفس اتاریاں ہیں

0
130
جو زخم کرے رفو کہاں ہے
اب آدمی خیر خو کہاں ہے
گر ذوقِ آرزو ہے باقی
تو شوقِ جستجو کہاں ہے
مائل ہیں بجانبِ گنہ سب
خلقِ خدا سرفرو کہاں ہے

0
692
خود چھین لیں جاں بری کہاں ہے
اب ایسی بھی عاشقی کہاں ہے
پوشاک میں سادگی نہیں اب
غیرت نے کی خود کشی کہاں ہے
وہ ظلمتِ شب میں روشنی تھا
بعد اس کے وہ چاشنی کہاں ہے

0
84
نَے رابطے ہیں نہ دوریاں ہیں
پر ہجر کے پل متاعِ جاں ہیں
تیری سبھی کج ادائیاں تو
بے الفتی کی نشانیاں ہیں
ہر شخص تمہارا ہم نشیں ہے
مجھ کو یہی شرم ساریاں ہیں

0
91
نہ عطائے یار سے کچھ نہ فریب کار سے ہے
کہ مجھے تو بس شکایت دلِ بے مہار سے ہے
غمِ ہجر سے نہیں ہے مرا اعتبار کیجے
ان اداسیوں کا ناتا غمِ روزگار سے ہے
تری معذرت نقالی یہ ملول چہرہ جھوٹا
مجھے واسطہ بھلا کیا ترے اعتذار سے ہے

0
124
عمر بھر ساتھ نبھائے تو کوئی بات بنے
یا کبھی پاس نہ آئے تو کوئی بات بنے
پرفتن دہر میں ہر سمت جفا کاری ہے
فصلِ الفت تو اگائے تو کوئی بات بنے
عارضی ان کی محبت مجھے منظور نہیں
دائمی عشق رچائے تو کوئی بات بنے

0
87
ہر لحظہ مجھے زخمِ جگر کاٹ رہا ہے
دنیا میں کوئی جیسے سقر کاٹ رہا ہے
کچھ کچھ غمِ فرقت بھری ٹہنی کو بھی ہو گا
گرتے ہوئے پتے کو یہ ڈر کاٹ رہا ہے
انسان کڑی دھوپ میں ڈھونڈے کہیں سایہ
نادان مگر خود ہی شجر کاٹ رہا ہے

0
77
پلکوں سے جاری ہے جو وہ برسات ڈھونگ ہے
پس اختتام ڈھونگ ، شروعات ڈھونگ ہے
خدمات کا جو راگ ہے حضرات ڈھونگ ہے
حکام کا تو عہد بھی بد ذات ڈھونگ ہے
اعلی حسب نسب پہ ہے تجھ کو بھی تھوڑا زعم
واعظ ترا یہ درسِ مساوات ڈھونگ ہے

0
78
بڈھے پہ جیسے آتی ہیں بیماریاں تمام
یہ عشق گھیر لیتا ہے آزاریاں تمام
ملنے کی اک عدو سے ہیں تیاریاں تری
میں بھی بدل کے دیکھوں وفاداریاں تمام
اک قہقہے کی گونج میں ڈوبے تمام غم
دو پل میں آج خاک ہوئیں زاریاں تمام

0
71
اک عدوئے بو البشر ، انسان ہے
خاک سے ہے پر شرر انسان ہے
خود کو سمجھے با ہنر ہر آدمی
کس قدر نا دیدہ ور انسان ہے
پوچھتا ہے تو مری اوقات کیا؟
لگتا ہے تو کم نظر انسان ہے

0
482
گر ربطِ دل استوار کیجے
حد سے بڑھ کر نہ پیار کیجے
نَے راحتِ شب نہ دن میں ہے چین
کیسے ردِ اضطرار کیجے
لازم ہے درونِ دل بھی اخلاص
جو گفتگو پر وقار کیجے

0
75
تیرہ شبی سے مفر کہاں ہے
پَو پھٹتی ہے بے سحر کہاں ہے
فتنہ گرو! تم سے پوچھتا ہوں
آسودگی فتنہ سر کہاں ہے
گر تجھ کو مری قدر نہیں تو
مجھ کو بھی تری خبر کہاں ہے

0
57
ہم تو اٹل تھے قول سے باہر نہیں گئے
اور لوگ بھاؤ تول سے باہر نہیں گئے
وہ بھی حصارِ ذات میں الجھے رہے سدا
ہم بھی انا کے خول سے باہر نہیں گئے
آمادہ آزری پہ تھے محکوم جب تلک
حاکم خدائی بول سے باہر نہیں گئے

0
76
ہم تو اٹل تھے قول سے باہر نہیں گئے
اور لوگ بھاؤ تول سے باہر نہیں گئے
وہ بھی حصارِ ذات میں الجھے رہے سدا
ہم بھی انا کے خول سے باہر نہیں گئے
آمادہ آزری پہ تھے محکوم جب تلک
حاکم خدائی بول سے باہر نہیں گئے

0
65
ہر اصطلاح سے جس کی غلط لغت نکلی
تمام لفظوں پہ اس کی ہی سلطنت نکلی
سمجھ رہا تھا جسے دوست دلربا اپنا
عدو کے ساتھ اسی کی مفاہمت نکلی
خوشی بھی رنج بھی تیرے ہی نام کے نکلے
وصال و ہجر میں کچھ تو مماثلت نکلی

0
98
کب پھونکِیے گا صُور کوئی بات کیجئے
کیا من میں ہے فُتُور کوئی بات کیجئے
بے وَجْہ ہم سے آپ نہ پہلو تہی کریں
اتنا بھی کیا غُرُور کوئی بات کیجئے
کوئی سنے نہ تو در و دیوار کے ہی کان
ہیں سامعیں وَفُور کوئی بات کیجئے

0
66
سب دشمنِ جاں اپنے ہمراہ نظر آئے
لے کر جو چلے بھائی تو چاہ نظر آئے
غفلت کے اندھیروں میں محبوس فقط ہم تھے
نادان جنہیں سمجھے ، آگاہ نظر آئے
تعریف کرے منہ پر اور پیٹھ پہ ہنستا ہے
اس دوست میں اک دشمن واللہ نظر آئے

0
74
اپنی آزادی اور وقار کو دیکھ
اے اسیرِ قفس نہ خار کو دیکھ
عارضی زندگی کا راگ نہ چھیڑ
دائمی عمر و برگ زار کو دیکھ
تیغ زن تجھ کو تھی جو حسرتِ دید
اب تو بسمل کے خوں فشار کو دیکھ

0
95
پلک جھپکتے میں سارا جہان روٹھ گیا
پدر کے بعد مرا خاندان روٹھ گیا
ابھی ہوں زخمی ، دریدہ نشان باقی ہیں
حبیب میرا مسیحا سمان روٹھ گیا
سخن گداز سبھی لہجے اس کے باعث تھے
ہوئے ہیں تلخ کہ جب خوش زبان روٹھ گیا

0
74
پوشیدہ رنگ لفظوں میں تیری طلب کے ہیں
یعنی مرے کلام میں جلوے طرب کے ہیں
جتنا ہجوم ساتھ ہے زر کے طفیل ہے
احباب توڑ جوڑ کے ماہر غضب کے ہیں
گستاخیوں کے بعد بھی برہم وہ کیوں نہ ہو
جب سلسلے جڑے ہوئے اس سے ادب کے ہیں

0
65
تجھ کو تکبر لے ڈوبا ہے، دل تو بے کل ہو گا نا
لیکن رسی میں جل کے بھی تھوڑا ابھی بل ہو گا نا
روح ہو زخمی جسم ہو چھلنی آنکھ میں تو جل آئے گا
مجھ کو چھوڑ کے تیرا بھی دل کچھ کچھ بوجھل ہو گا نا
میرے بعد جو تجھ کو جھیلے، اتنا ہی تجھے پیار کرے
اس دنیا میں میرے جیسا، ایک تو پاگل ہو گا نا

0
53
جیت بن ہارے جاں گُزا مجھ کو
کچھ نہیں خوف ہار کا مجھ کو
میرے کندھوں پہ بارِ حسرت ہے
بے الم ہستی بے مزہ مجھ کو
میں چمن زاروں میں نہیں رہتا
خار زاروں میں ملنے آ مجھ کو

0
117
ردیف لائیے تو چاہیئے وفا کرنا
سخن سرائی میں فن ہے اسے وفا کرنا
تخیلات کے سب زاویوں کو تفصیلاً
پرو کے لفظوں میں سمجھائیے وفا کرنا
یہ شاعری ہے کوئی لفظی ہیر پھیر نہیں
کلام سیکھتے ہیں آئیے وفا کرنا

0
77
اگر ظلم پر آنکھ پرنم نہیں ہے
تو آدم ہے حیوان آدم نہیں ہے
غمِ عشق ہے تو عبث غم نہیں ہے
زمانے کا غم بھی مگر کم نہیں ہے
تمہاری توقع سے آگے کہیں ہیں
نہ ہم سے الجھنا اگر دم نہیں ہے

0
110
مزاج برہم بہار آنکھیں
تمہاری فتنہ شعار آنکھیں
نہ غیر پر اٹھتے ہم نے دیکھیں
تھیں کیا کفایت شعار آنکھیں
سنبھال ، تجھ کو کہا نہ تھا کیا
یہ سرد لہجہ شرار آنکھیں

0
127
حسین دلکش سراب سی ہیں یہ کہکشائیں تمہاری آنکھیں
کہیں خدارا انہیں چھپاؤ ، کہ ہیں بلائیں تمہاری آنکھیں
میں ہنستے ہنستے سزائیں جھیلوں ، خوشی خوشی غم کا تاج پہنوں
شکست ہر اک قبول کر لوں ، اگر ہرائیں تمہاری آنکھیں
ادا تمہاری بھی کیا غضب ہے لبوں سے کہنا کہ جاؤ بھی اب
کبھی نہ جاؤں کبھی نہ چھوڑوں کریں دعائیں تمہاری آنکھیں

0
172
ہجر سے اس کے دلی وارفتگی کا شکریہ
حسرتِ دیدار تیری تشنگی کا شکریہ
گر انا ہے آپ میں تو ہم میں بھی کچھ کم نہیں
آپ کی اس بے سبب آزردگی کا شکریہ
اک سزائے تازیانہ کی وجہ جو بن گئی
اے دلِ نادان اُس دیوانگی کا شکریہ

0
98