بجلی گرے کہیں یا تلوار آ گرے
یا اپنے سر پہ گھر کی دیوار آ گرے
مزدور گِھر گئے ہیں فکرِ معاش میں
ہڑتال سے بچے تو تہوار آ گرے
اس مے کدے کو لوگو مت مے کدہ کہو
جس مے کدے میں کوئی دیں دار آ گرے
کارِ جہاں یہی ہے قدرت عجیب ہے
دو چار چل بسے تو دو چار آ گرے
آنکھوں میں اس کی جانے کیسا خمار تھا
با ہوش گھر سے نکلے ، سرشار آ گرے
پوری نہ ہو سکے گی اس شخص کی کمی
ٹھوکر میں اپنی چاہے سنسار آ گرے
اک پل میں شاہ کاسہ بردار ہو گئے
ناکامیوں کا جن پر انبار آ گرے
سِدْویؔ نہ دشمنوں کی پگڑی اچھالئے
پاداش میں نہ اپنی دستار آ گرے

0
52