لوگ کہتے ہیں کہ افلاس نے دم توڑ دیا
ان کے سلطان نے مہنگائی کا سر پھوڑ دیا
بھوکے سہ روزہ شکم سیر ہوئے جلسے میں
ایک معصوم کی اس بات نے جھنجھوڑ دیا
سرِ محفل مجھے الزام دغا دیتے رہے
خود پہ بات آئی تو پھر بات کا رخ موڑ دیا
مرے قاتل سے مرے قاضی نے گٹھ جوڑ کیا
خوں بہا میرا لیا اور اسے چھوڑ دیا
کف کے اک چاک کو چاکِ گریباں سمجھا
چاک دامن کا رفو گر نے کہاں جوڑ دیا
سِدْویؔ محبوب نے اس دل کو کھلونا جانا
پاؤں میں روند دیا جوڑ کے پھر توڑ دیا

0
51