| میں مدارِ عمر سے جا چکا مرے نوحہ گر نہ اداس ہو |
| مجھے یاد کر کے تو بن سنور ، مرے ہمسفر نہ اداس ہو |
| یہ مفارقت تو قبول کر جو نصیب میں ہے لکھی گئی |
| تو دعاؤں میں مجھے یاد رکھ نہ تو آہیں بھر نہ اداس ہو |
| جو چلا گیا اسے دے دعا جو ملا ہے اس کو عزیز رکھ |
| یہ خلا بھرے نہ بھرے صنم مری مرگ پر نہ اداس ہو |
| تجھے یاد ہے ترے رونے پر میں تجھے گلے سے لگاتا تھا |
| مری قبر پر تری چشم تر کا نہیں اثر نہ اداس ہو |
| دلِ مضطرب کو دے حوصلہ کہ حسین تر یہ حیات ہے |
| مرے ہم نفس یہ پکار سن یوں ہی رات بھر نہ اداس ہو |
| تو چمن میں سیر کو جائے گر تو شجر چمن کے دہائی دیں |
| کہ نسیمِ صبح کا لطف لے ، سرِ رہگزر نہ اداس ہو |
| یہ خموشیوں کا مزار ہے تو یہاں پہ آہ و بکا نہ کر |
| یہیں سِدْویؔ گوشہ نشین ہے نہ یہاں ٹھہر نہ اداس ہو |
معلومات