نَے رابطے ہیں نہ دوریاں ہیں
پر ہجر کے پل متاعِ جاں ہیں
تیری سبھی کج ادائیاں تو
بے الفتی کی نشانیاں ہیں
ہر شخص تمہارا ہم نشیں ہے
مجھ کو یہی شرم ساریاں ہیں
مثلِ مہتاب روشنی دیں
جو باپ کی شاہ زادیاں ہیں
کیوں عشق سے ہے گریز پوچھا
کہنے لگے جگ ہنسائیاں ہیں
یہ حسن ہمیشہ کے لئے ہے
کیا آپ کی خوش گمانیاں ہیں
گفتار میں ناز گر نہیں ہے
کیوں لہجے میں خود نمائیاں ہیں
وہ سِدْویؔ گر انتظار کرتے
تو کہتے کہ مہربانیاں ہیں

0
91