اب تو ملتے بھی نہیں یار کہاں ہوتے ہو
کس جگہ لگتے ہیں دربار کہاں ہوتے ہو
ایک مدت سے کوئی فلم نہیں دیکھی دوست
دنیا کے آخری فنکار کہاں ہوتے ہو
ہر کسی سے مری خاطر تم الجھ جاتے تھے
خود سے ہی آج ہے تکرار کہاں ہوتے ہو
تلخ کامی سے جہاں کی بھی میں نالاں ہوں
خود سے بھی برسرِ پیکار کہاں ہوتے ہو
آج پھر دل پہ اداسی کا فسوں طاری ہے
میرے ہم راز جگر دار کہاں ہوتے ہو
تَلْخ اندیش ہوں کچھ عیش پسندوں میں گھرا
آئنہ دیکھوں، کہوں یار !  کہاں ہوتے ہو؟
بدمزاجوں میں سخن سنجی بھلا بیٹھا ہوں
سِدْویؔ اے صاحبِ گفتار کہاں ہوتے ہو

0
76