| راہ گزارِ عشق میں نیک شعار ہو گیا |
| سِدْویؔ جو راہِ حق چلا کوہِ وقار ہو گیا |
| شہر نشیں سبھی جسے شہرِ خموشاں کہتے ہیں |
| باغی کے واسطے وہی جائے قرار ہو گیا |
| گنجِ شعور الجھے ہیں حرفِ غلط نہ ہو کہیں |
| شعر و ادب میں نا سمجھ زود نگار ہو گیا |
| ساقی نہیں ہے وہ مگر اس میں بھرا نشہ سا ہے |
| میرے لئے وہ شخص تو آبِ خمار ہو گیا |
| تیری نظر کے تیر سے بچنا محال ہے صنم |
| میں وہ شکاری ہوں کہ جو تیرا شکار ہو گیا |
| میرے اے دوست دل نشیں مجھ کو خبر نہ ہو سکی |
| جانے تو کب مرے لئے لیلیٰ عذار ہو گیا |
| سِدْویؔ وہ سِحْر کار ہے اس کے جو ساتھ چل پڑا |
| سنگِ گراں بھی جست میں کار گزار ہو گیا |
معلومات