خود چھین لیں جاں بری کہاں ہے
اب ایسی بھی عاشقی کہاں ہے
پوشاک میں سادگی نہیں اب
غیرت نے کی خود کشی کہاں ہے
وہ ظلمتِ شب میں روشنی تھا
بعد اس کے وہ چاشنی کہاں ہے
خاموش لبوں کی باتیں پڑھ لے
اب وہ دیدہ وری کہاں ہے
میں ہاروں تو جیتے آرزو تھی
بے مات شکستگی کہاں ہے
بچپن سے جوانی کے بھلے دن
گم ہو گئی وہ گھڑی کہاں ہے
نازک ہے نفس کی ڈور سِدْویؔ
بس دیکھیے ٹوٹتی کہاں ہے

0
84