رخ بے وفا کے شہر کی جانب ہے کیا ہنوز
سِدْویؔ مدارِ عشق وہ کاذب ہے کیا ہنوز
میں بے رخوں کی بزم کو چھوڑ آیا دوستو
انداز میرا غیر مناسب ہے کیا ہنو
جو مفلسی کی بھینٹ چڑھا، دام قبر کا
اس کے لواحقین پہ واجب ہے کیا ہنوز
سنتا نہیں ہے کوئی بھی رودادِ بے بسی
خود اپنے آپ سے تو مخاطب ہے کیا ہنوز
اس پر یقیں قیاس کے قد سے بڑھا ہے پر
اپنا وہ ہم خیال مصاحب ہے کیا ہنوز
سِدْویؔ نظر میں ساقیِ مہوش کا عکس ہے
کل کا نشہ حواس پہ غالب ہے کیا ہنوز

0
48