| رختِ سفر گنوا کے جو بے خانماں اٹھے |
| سِدْویؔ نہ کیوں جہان سے اب بھی جہاں اٹھے |
| جب ان کو آئنہ سرِ محفل دکھا دیا |
| ناراض ہو کے مجھ سے مرے ہم عِناں اٹھے |
| فتویٰ اگر ہو قتل کا ہر آدمی کے پاس |
| پھر کیوں نہ تیرے شہر سے ہر ایک جاں اٹھے |
| ناکامران ہو کے ترے در سے ہم چلے |
| دریا سے کوئی جیسے کہ تشنہ دہاں اٹھے |
| اب سِدْویؔ آفتاب بھی نامہرباں ہوا |
| برباد نامراد نگر سے دھواں اٹھے |
معلومات