رختِ سفر گنوا کے جو بے خانماں اٹھے
سِدْویؔ نہ کیوں جہان سے اب بھی جہاں اٹھے
جب ان کو آئنہ سرِ محفل دکھا دیا
ناراض ہو کے مجھ سے مرے ہم عِناں اٹھے
فتویٰ اگر ہو قتل کا ہر آدمی کے پاس
پھر کیوں نہ تیرے شہر سے ہر ایک جاں اٹھے
ناکامران ہو کے ترے در سے ہم چلے
دریا سے کوئی جیسے کہ تشنہ دہاں اٹھے
اب سِدْویؔ آفتاب بھی نامہرباں ہوا
برباد نامراد نگر سے دھواں اٹھے

0
62