یادِ ماضی کو بلا خوف و خطر رکھا ہے
عشق نے تیرے سیہ چشم کو تر رکھا ہے
اے خدا شکوہ نہیں تیری ہے تقسیم مگر
کیسے لوگوں کا ہمیں دست نگر رکھا ہے
عالمِ جذب میں اشراق اگر تیرا نہیں
کس نے پھر ہاتھ مرے ہاتھ پہ دھر رکھا ہے
مرمریں دست پہ ہے رنگ حنا کا انگار
یا ہتھیلی پہ تری شمس و قمر رکھا ہے
اس کی محفل میں کوئی صاحبِ ادراک نہیں
ورنہ شعروں میں نہاں زخمِ ہنر رکھا ہے
صاحبِ تاج نہیں صاحبِ دانش لیکن
یہ شجر مولا نے پُر برگ و ثمر رکھا ہے
شہر کا شہر گنہگار ہوا ہے سِدْویؔ
ایک بعد ایک نئے قہر کا ڈر رکھا ہے

0
37