| تشنہ لب آب رساں کو نہ پکار |
| گل ہے تُو مشک فشاں کو نہ پکار |
| خوشبوئے زلفِ صنم کے طالب |
| آج اس آفتِ جاں کو نہ پکار |
| بیج نفرت کا جہاں میں بو کر |
| شرِّ بد شہرِ اماں کو نہ پکار |
| چاک کر دیں نہ گریبان ترا |
| نیم آشفتہ سراں کو نہ پکار |
| سِدْویؔ ہر شخص یہاں کیف میں ہے |
| ایسے میں رقص کناں کو نہ پکار |
معلومات