| نفرتوں سے الفتوں کا سفر عجیب ہے |
| چھٹتی ہیں سیاہیاں صبح عنقریب ہے |
| کیا اسے دلیل دیں اس سے بات کیا کریں |
| منصبی غرور میں مبتلا خطیب ہے |
| ایک شخص کَل تلک کُل متاعِ زیست تھا |
| بات تو مہیب ہے آج وہ رقیب ہے |
| میں خزاں پذیر ہوں نخلِ غم ہے ساتھ ساتھ |
| اور نحیف کس قدر سوزِ عندلیب ہے |
| دل کی دنیا یک بیک سوگوار ہو گئی |
| جس گھڑی جدا ہوا میرا وہ حبیب ہے |
| فتنہ باز شہر میں ایک بار آ گیا |
| اور شر سے بچ گیا کون خوش نصیب ہے |
| کائنات قید ہے جس کسی کے واسطے |
| بدمزاج ہے مگر وقت کا ادیب ہے |
| عمر بھر گناہوں پر سینہ تانے رہتے تھے |
| شرم سار تب ہوئے موت جب قریب ہے |
| محفلِ حیات میں سِدْویؔ داد کیوں ملے |
| شاعری سے کام کیا جبکہ تو غریب ہے |
معلومات