جان کیا ہے عشق میں ہر زیاں قبول ہے
یہ بھی اے حریمِ جاں امتحاں قبول ہے
خوف کیا ممات کا؟ ساتھ تو اگر رہے
بر زمینِ دل فغاں ہم عناں قبول ہے
کون جانتا ہے کب زندگی دغا کرے
آج جینے دیجئے کل فغاں قبول ہے
سات کا نہ آٹھ کا اور نہ تیرھویں کا چاند
گر چڑھے تو ماہِ کُل ، کم کہاں قبول ہے
اس ترقی یافتہ شہرِ ناسپاس کو
نَے قبول تیرگی، نَے دھواں قبول ہے
حدّتِ چراغِ شب سے گلہ رہا ہنوز
تیرگی نہ چاہیے ضوفشاں قبول ہے
سِدْویؔ بیچ راہ میں کارواں نہ روکیے
منزلِ مراد میں کہکشاں قبول ہے

0
54