| جان کیا ہے عشق میں ہر زیاں قبول ہے |
| یہ بھی اے حریمِ جاں امتحاں قبول ہے |
| خوف کیا ممات کا؟ ساتھ تو اگر رہے |
| بر زمینِ دل فغاں ہم عناں قبول ہے |
| کون جانتا ہے کب زندگی دغا کرے |
| آج جینے دیجئے کل فغاں قبول ہے |
| سات کا نہ آٹھ کا اور نہ تیرھویں کا چاند |
| گر چڑھے تو ماہِ کُل ، کم کہاں قبول ہے |
| اس ترقی یافتہ شہرِ ناسپاس کو |
| نَے قبول تیرگی، نَے دھواں قبول ہے |
| حدّتِ چراغِ شب سے گلہ رہا ہنوز |
| تیرگی نہ چاہیے ضوفشاں قبول ہے |
| سِدْویؔ بیچ راہ میں کارواں نہ روکیے |
| منزلِ مراد میں کہکشاں قبول ہے |
معلومات