دل سے اپنے شکست کے امکانات نکال
فتح نصیب تو ٹھہرے خوفِ مات نکال
سن دلبر دل کٹتا ہے خاموشی سے
وقت کٹے تُو بات سے کوئی بات نکال
لکھ کے نام مٹائیں بچپن یاد کریں
مشق کریں پھر تختی سیاہی دوات نکال
عشق میں عاشق اور معشوق میں کیا تکرار
بدظن اپنے دل سے سب خدشات نکال
نسلی تعصب سے قومیں مٹ جاتی ہیں
مومن اپنے ذہن سے حبِ ذات نکال
سِدْویؔ رب کی رحمت سے مایوس نہ ہو
رکھ روشن امید یہ کالی رات نکال

0
49