| ہمارے حصے میں دو گز نہ گر زمیں آئے |
| تو عدلِ میر پہ کیا ہم کو پھر یقیں آئے |
| تمھی نہ آئے کہ مصروفیت بہانا تھی |
| مزاج پرسی کو انجان دل حزیں آئے |
| نہ دشمنی کا سلیقہ حریف کو آیا |
| نہ الفتوں کو نبھانے کے ہی قریں آئے |
| چلے تھے شوقِ سفر میں جہان دیکھیں گے |
| جہان گھوم کے آخر مکیں وہیں آئے |
| ترستے دید کو جن کی ہمیں زمانہ ہوا |
| وہ آج آئے تو غیروں کے ہم نشیں آئے |
| عزیز کیوں یہ ستم غیر پر نہیں کرتے |
| یہ ظلم سہنے زمانے میں کیا ہمیں آئے |
| وہ جن کے آنے کی امید تھی ہمیں سِدْویؔ |
| ہمارے سوگ میں رونے بھی وہ نہیں آئے |
معلومات