ہمارے حصے میں دو گز نہ گر زمیں آئے
تو عدلِ میر پہ کیا ہم کو پھر یقیں آئے
تمھی نہ آئے کہ مصروفیت بہانا تھی
مزاج پرسی کو انجان دل حزیں آئے
نہ دشمنی کا سلیقہ حریف کو آیا
نہ الفتوں کو نبھانے کے ہی قریں آئے
چلے تھے شوقِ سفر میں جہان دیکھیں گے
جہان گھوم کے آخر مکیں وہیں آئے
ترستے دید کو جن کی ہمیں زمانہ ہوا
وہ آج آئے تو غیروں کے ہم نشیں آئے
عزیز کیوں یہ ستم غیر پر نہیں کرتے
یہ ظلم سہنے زمانے میں کیا ہمیں آئے
وہ جن کے آنے کی امید تھی ہمیں سِدْویؔ
ہمارے سوگ میں رونے بھی وہ نہیں آئے

0
54