| چبھنے لگی ہے خار سی ، رو رو کے دل دہائی دے |
| اپنی حیاتی وار دوں پھر سے جو ماں دکھائی دے |
| سایہ نہ باپ کا رہا ، جینا وبال ہو گیا |
| حد سے زیادہ بڑھ گیا رنج و الم رہائی دے |
| قدموں میں ان کے بیٹھنے کا وہ سکوں چلا گیا |
| ان کے بغیر رات دن کچھ نہ مجھے سجھائی دے |
| خاکِ لحد میں روشنی کر دے عطا مرے خدا |
| جلوہ گری ہو چار سو ایسی جہاں نمائی دے |
| کہتی تھی سِدْویؔ لاڈلے اک دو نوالے اور لے |
| کانوں میں روز بازگشت ماں کی مجھے سنائی دے |
معلومات