چبھنے لگی ہے خار سی ، رو رو کے دل دہائی دے
اپنی حیاتی وار دوں پھر سے جو ماں دکھائی دے
سایہ نہ باپ کا رہا ، جینا وبال ہو گیا
حد سے زیادہ بڑھ گیا رنج و الم رہائی دے
قدموں میں ان کے بیٹھنے کا وہ سکوں چلا گیا
ان کے بغیر رات دن کچھ نہ مجھے سجھائی دے
خاکِ لحد میں روشنی کر دے عطا مرے خدا
جلوہ گری ہو چار سو ایسی جہاں نمائی دے
کہتی تھی سِدْویؔ لاڈلے اک دو نوالے اور لے
کانوں میں روز بازگشت ماں کی مجھے سنائی دے

0
41