اے نور فشاں ! اذن قریں ہے کہ نہیں ہے
اس شب کی سحر پاس کہیں ہے کہ نہیں ہے
ایمان ترا کیوں مُتَزَلزل ہے سفر میں
منزل پہ پہنچنے کا یقیں ہے کہ نہیں ہے
دل اس کی محبت میں گرفتار ہے لیکن
وہ شخص محبت کا امیں ہے کہ نہیں ہے
پرواز بھرو اونچی مگر جان لو پہلے
پاؤں کے تلے اپنے زمیں ہے کہ نہیں ہے
مسجودِ ملائک پہ تعجب ہے کہ سِدْویؔ
ناداں یہ کہے عرشِ بریں ہے کہ نہیں ہے

0
45