| دل! نفس کے غلام کو دل سے نکال کر |
| رکھ رخشِ بے لگام کو دل سے نکال کر |
| شاید ہو باقی تیری دعاؤں میں کچھ اثر |
| رکھ حاجتِ نیام کو دل سے نکال کر |
| رہتا نہیں وجود بھی باقی وجود میں |
| اس کربِ ناتمام کو دل سے نکال کر |
| ہر رت میں رنگِ سوز تھا ہر شب سیاہ کار |
| اک سرمئی سی شام کو دل سے نکال کر |
| بے فائدہ لگیں گے تمہیں وسوسے تمام |
| گر دیکھو اتہام کو دل سے نکال کر |
| ممکن نہیں ہے سِدْویؔ بسے دل جہان میں |
| اب اس سیاہ فام کو دل سے نکال کر |
معلومات