دل! نفس کے غلام کو دل سے نکال کر
رکھ رخشِ بے لگام کو دل سے نکال کر
شاید ہو باقی تیری دعاؤں میں کچھ اثر
رکھ حاجتِ نیام کو دل سے نکال کر
رہتا نہیں وجود بھی باقی وجود میں
اس کربِ ناتمام کو دل سے نکال کر
ہر رت میں رنگِ سوز تھا ہر شب سیاہ کار
اک سرمئی سی شام کو دل سے نکال کر
بے فائدہ لگیں گے تمہیں وسوسے تمام
گر دیکھو اتہام کو دل سے نکال کر
ممکن نہیں ہے سِدْویؔ بسے دل جہان میں
اب اس سیاہ فام کو دل سے نکال کر

0
47