تیرہ شبی سے مفر کہاں ہے
پَو پھٹتی ہے بے سحر کہاں ہے
فتنہ گرو! تم سے پوچھتا ہوں
آسودگی فتنہ سر کہاں ہے
گر تجھ کو مری قدر نہیں تو
مجھ کو بھی تری خبر کہاں ہے
ممکن تھا کہ ہار جیت ہوتی
پر سامنے بو البشر کہاں ہے
کاٹی ہے طویل ہجر کی رات
تا عمر یہ مختصر کہاں ہے
اب آئنے سے بھی خوف آئے
عکس اپنا حسین تر کہاں ہے
ظلمت پہ تمام لوگ چپ ہیں
اک شخص بھی جان بر کہاں ہے
اس دشتِ بے شجر سے نکلو
یاں ہوتی گزر بسر کہاں ہے
ناحق جو کسی کا مال لوٹے
پھر اس کو خدا کا ڈر کہاں ہے
احساس گنہ ہو رنج و غم ہو
ہر شخص میں آبرو کہاں ہے
شاہوں کی غلامی چھوڑو سِدْویؔ
ان سے ملے فیض پر کہاں ہے

0
57