| ہر اصطلاح سے جس کی غلط لغت نکلی |
| تمام لفظوں پہ اس کی ہی سلطنت نکلی |
| سمجھ رہا تھا جسے دوست دلربا اپنا |
| عدو کے ساتھ اسی کی مفاہمت نکلی |
| خوشی بھی رنج بھی تیرے ہی نام کے نکلے |
| وصال و ہجر میں کچھ تو مماثلت نکلی |
| یہاں اصول نصابی کبھی نہیں چلتے |
| کتابِ عشق کی بے جا لکھت پڑھت نکلی |
| اسی کو لوگ مسیحا سمجھ کے بیٹھے ہیں |
| دروں سے جس کے نہ شفقت نہ معرفت نکلی |
| محبتوں کی ہمیں جس سے پھل کی آس رہی |
| اسی شجر کی جڑوں سے منافرت نکلی |
| وہیں پہ بونے چلے سِدْویؔ بیج الفت کے |
| جہاں سے شہرِ فتن میں مزاحمت نکلی |
معلومات