کیا دور ہے کہ سیفِ زُباں کھینچنے لگے
اک دوسرے پہ لوگ سِناں کھینچنے لگے
کیا آپ نے کمی کی مری جاں کھپانے میں
دیدہ ورانِ شہر بھی جاں کھینچنے لگے
کیا بھیڑیا صفت تھے وہ انساں کے بھیس میں
بسمل کے جسم سے جو رُواں کھینچنے لگے
کل تک مری سپاہ میں شامل جو لوگ تھے
مجھ پر ہی آج تیر کماں کھینچنے لگے
شعر و سخن سے ان کی نہ جو بات بن سکی
ناز و ادا سے دادِ شہاں کھینچنے لگے
ناصح ترے بیان میں شر کیسا تھا کہ رند
کوئے حرم سے کوئے بتاں کھینچنے لگے
قدرت کی کرنی دیکھ جو دھتکارتے رہے
اپنی طرف وہ بعد ازاں کھینچنے لگے
ذکرِ جفا کیا تو برا تم کو کیوں لگا
تم بھی کہاں کی بات کہاں کھینچنے لگے
دیکھو نگلتی اور دھواں دیتی چمنیاں
بچے جو آج کل کے دھواں کھینچنے لگے
سِدْویؔ نہ آپ شہرِ تمنا کو جائیے
ممکن ہے حرصِ کارِ جہاں کھینچنے لگے
سِدْویؔ عجیب رسم چلی حُبِّ ذات کی
سب اپنے دائرے کا نشاں کھینچنے لگے

0
29