| حسین دلکش سراب سی ہیں یہ کہکشائیں تمہاری آنکھیں |
| کہیں خدارا انہیں چھپاؤ ، کہ ہیں بلائیں تمہاری آنکھیں |
| میں ہنستے ہنستے سزائیں جھیلوں ، خوشی خوشی غم کا تاج پہنوں |
| شکست ہر اک قبول کر لوں ، اگر ہرائیں تمہاری آنکھیں |
| ادا تمہاری بھی کیا غضب ہے لبوں سے کہنا کہ جاؤ بھی اب |
| کبھی نہ جاؤں کبھی نہ چھوڑوں کریں دعائیں تمہاری آنکھیں |
| تمہارے ہونٹوں کا یہ تبسّم عیاں کرے حالِ دل تمہارا |
| چھپا رہی ہو جو دل کی باتیں مجھے بتائیں تمہاری آنکھیں |
| الگ ہیں رستے الگ ہے منزل ، نصیب اپنے جدا جدا ہیں |
| سہانے دلکش سے خواب پھر کیوں مجھے دکھائیں تمہاری آنکھیں |
| تمہارے بن کیسے سال گزرے ، گئے دنوں کی خبر نہ پوچھو |
| یہ جان لو بس اے جانِ سِدْویؔ کہ یاد آئیں تمہاری آنکھیں |
معلومات