نَے محبت نہ کج ادائی ہے
تیری کیسی یہ دلربائی ہے
زندگی ! تیرا قہقہہ سن کر
موت چپکے سے مسکرائی ہے
کر رہے ہیں سنی سنائی بات
دکھتا ہے جو پہاڑ ، رائی ہے
جن سے برسوں تلک تضاد رہا
ان سے امیدِ پارسائی ہے
اس نے کی جو غزل سرائی وہ
دشتِ خلوت میں گنگنائی ہے
مان اس کا کہیں کہ حق تلفی
دل پہ اس کی جو کاروائی ہے
دامِ صیاد میں ہے دامنِ دل
سِدْویؔ دنیا سے اب رہائی ہے

0
90