دریا سمجھ رہے ہو سمندر ہے، اک قفس
شب زاد غم کی شام، برابر ہے اک قفس
آزاد ہوں میں مجھ کو غلامی نہیں قبول
سر کو جھکائے رکھنے سے بہتر ہے اک قفس
ذہنی اسیر پا کے رہائی کریں گے کیا؟
کم فہم بزدلوں کا مقدر ہے اک قفس
مشغول اپنی دھن میں ہیں کیا نفسا نفسی ہے
بے اعتنائی عام ہے گھر گھر ہے اک قفس
ہر اک خیال دور ہر اک لفظ گمشدہ
یہ بسترِ فراق سراسر ہے اک قفس
اندازِ دلربائی ہے مثلِ ملالِ ہجر
مفلس غزل کا حرفِ مکرر ہے اک قفس
اک قہقہے کی گونج سلاخیں ہلا گئی
بس دنگ میں نہیں متحیر ہے اک قفس
سِدْویؔ یہاں سے عشق کی توہین ہے فرار
تم خوش نصیب ہو کہ میسر ہے اک قفس

0
47