| نا سمجھ! مت سمجھ تو ہی تو آج ہے |
| اپنی بھی شہر میں آبرو آج ہے |
| قحط پڑنے لگا ہے خوشی کا یہاں |
| میری جاں شاخِ دل بے نمو آج ہے |
| سرد مہری کی ایسی ہوائیں چلیں |
| صلح جو شخص بھی زشت خو آج ہے |
| جو بھی شکوے گلے ہیں ابھی کیجئے |
| آپ سے آخری گفتگو آج ہے |
| ہم نے اپنی خوشی مفت میں بانٹ دی |
| تم کو جس کی بڑی جستجو آج ہے |
| خود سے بچھڑے ہوئے اک زمانہ ہوا |
| خود سے ملنے کی پھر آرزو آج ہے |
| عالمِ خاک میں اپنی اوقات کیا |
| بے ادب بے حیا سرخرو آج ہے |
| کس پہ سِدْویؔ بھروسہ کیا کیجئے |
| کل تلک دوست تھا جو عدو آج ہے |
معلومات