اک لُغَت اپنی کہ جس میں صلح جُو ہے محترم
اور تری فرہنگ میں اک زشت خُو ہے محترم
عشق آخر کیوں کریں بدنامیوں کا خدشہ ہے
آبرو داروں کو تو بس آبرو ہے محترم
پر فتن یہ دور ہے ہر شخص میں فرعون ہے
جو بھی ان سے بچ گیا وہ سرخرو ہے محترم
قصدِ الفت کر لیا تو جان سے بھی جائیے
آرزو کے دیس میں یہ جستجو ہے محترم
آپ اے واعظ نہ اب اُس کی وکالت کیجئے
جانتے ہیں ہم وہ کتنا خیر خُو ہے، محترم!
وہ دِیا جو باد کے نرغے میں آ کے بجھ گیا
ہم کو اس کی آخری وہ مشک بو ہے محترم
عالمِ برزخ کے سِدْویؔ دائرے میں قید ہیں
چادرِ افلاس اپنے چار سو ہے محترم

0
42