| ریت گھروندے خواب نگر کے پس منظر میں رہتے ہیں |
| جیسے وفا کے خواب جفا سے خوف و خطر میں رہتے ہیں |
| انسانوں سے کیسا شکوہ جب مری بخت سیاہی سے |
| خود آسیب بھی سہمے سہمے میرے گھر میں رہتے ہیں |
| گرچہ ظاہر خوش پیکر ہے با اخلاق دکھائی دوں |
| بے ایماں ہوں گناہ قد آور دامنِ تر میں رہتے ہیں |
| کیا خود کو مظلوم کہیں جب اپنا دامن صاف نہیں |
| ہم جیسے بھی ٹھاٹ سے شہرِ فتنہ گر میں رہتے ہیں |
| پیاس ہماری بجھتی نہیں اور دل مضطر سا رہتا ہے |
| ان دیکھے منظر ہیں جو بے تاب نظر میں رہتے ہیں |
| اجڑے گھروندے بہتی لاشیں شہرِ خموشاں کا منظر |
| زر دارو ! ہم دریا کنارے مد و جزر میں رہتے ہیں |
| عشق میں ہر اک عاشق کو کچھ روز ٹھہرنا پڑتا ہے |
| ماتم دار محبت کے جس سوگ نگر میں رہتے ہیں |
| سِدْویؔ دیکھنے والے ہیں سب رنگ نرالے قدرت کے |
| سیپیوں میں ہیں چمکتے موتی نگیں پتھر میں رہتے ہیں |
معلومات