موت سے اور نہ تلوار سے ڈر لگتا ہے
پر ہمیں یار کی یلغار سے ڈر لگتا ہے
ایک امید ہو بچوں کو کہ پھل لاؤں گا
جیب خالی ہو تو افطار سے ڈر لگتا ہے
تیری رحمت کے خزانوں میں کمی گرچہ نہیں
جگ کے غاصب سے نگہدار سے ڈر لگتا ہے
سنگ دنیا کے جسے چلنا سکھایا ہم نے
اب اسی شخص کے اطوار سے ڈر لگتا ہے
جو بھی آتا ہے وہ فرعون نما ہوتا ہے
سِدْویؔ ملت کے نگہدار سے ڈر لگتا ہے

0
46