یہ عتابِ آرزو ہے گھڑی چین کی نہیں ہے
گو ہزار جستجو کی پہ خوشی ملی نہیں ہے
کوئی آس لوٹنے کی گو صنم نے دی نہیں ہے
نہ جب انتظار ہوتا کوئی شام بھی نہیں ہے
یہ مقامِ ہو نہیں گر تو ہے دل گرفتگی کیا
ہے وجود نفسی اور کیا؟ جو فرامشی نہیں ہے
مری جھونپڑی کی اینٹیں ترے قصر میں جڑی ہیں
تو پلی محل کدے میں تجھے آگہی نہیں ہے
نہ میں بندی ہوں نہ جھومر کہ تو ماتھے پر سجا لے
یہ فقط ہے حق شناسی ، یہ کرختگی نہیں ہے
وہ نہ دیکھتا پلٹ کر نہ پھر ایسے دل دھڑکتا
شب و روز ہے تماشا ، یہ تو عاشقی نہیں ہے
ہے خبر شکم پری کو عدو سنگ چل پڑے ہیں
یہ عیاں ہے نفرتوں کی نفی باطنی نہیں ہے
تری اک خوشی کے صدقے میں تو جاں نثار کر دوں
دل اگرچہ جانتا ہے تجھے عشق ہی نہیں ہے
یہ نمودِ سوز کیا ہے؟ یہ ملال کیسا سِدْویؔ
کہیں ان کہی محبت تو بناوٹی نہیں ہے

0
51