| جہاں پہ جاں کا تقاضا ہو جان دیتا ہوں |
| میں دوستوں کو اسی طرح مان دیتا ہوں |
| شبِ سیاہ میں جس پل مجھے پکارو گے |
| ہمیشہ ساتھ ملوں گا زبان دیتا ہوں |
| جلا کے راکھ کئے ہیں تمہی نے کھیت مرے |
| مرا ہی ظرف ہے تم کو " لگان " دیتا ہوں |
| ہزار کشمکشوں نے کیا ہے گھیراؤ |
| ہر ایک روز نیا امتحان دیتا ہوں |
| حریف چاہے مقابل ہو تشنہ خوں سِدْویؔ |
| اسیر بن کے جو آئے امان دیتا ہوں |
معلومات