جہاں پہ جاں کا تقاضا ہو جان دیتا ہوں
میں دوستوں کو اسی طرح مان دیتا ہوں
شبِ سیاہ میں جس پل مجھے پکارو گے
ہمیشہ ساتھ ملوں گا زبان دیتا ہوں
جلا کے راکھ کئے ہیں تمہی نے کھیت مرے
مرا ہی ظرف ہے تم کو " لگان " دیتا ہوں
ہزار کشمکشوں نے کیا ہے گھیراؤ
ہر ایک روز نیا امتحان دیتا ہوں
حریف چاہے مقابل ہو تشنہ خوں سِدْویؔ
اسیر بن کے جو آئے امان دیتا ہوں

0
46