| جامِ جم نہ بادۂِ احمریں قبول ہے |
| وہ پلائے زہر بھی آتشیں قبول ہے |
| کشمکش میں ذہن و دل، عشق ہے وبالِ جان |
| مضطرب ہوں کیا کہوں؟ ہاں، نہیں، قبول ہے |
| مہ جبیں کی دل فریب ہر ادائے ناز پر |
| لذتِ فراق بھی پیش بیں قبول ہے |
| حاصلِ کلام سن، بر کلامِ ناقصاں |
| اعتراض بھی ترا عیب چیں قبول ہے |
| بس عروج کا قلق، ہم عناں نہیں قبول |
| اب ہمیں زوال بھی ہم نشیں قبول ہے |
| سِدْویؔ رشکِ آفتاب ہونا ہی نہیں کمال |
| عاشقوں کو عہدۂِ کم تریں قبول ہے |
معلومات