جامِ جم نہ بادۂِ احمریں قبول ہے
وہ پلائے زہر بھی آتشیں قبول ہے
کشمکش میں ذہن و دل، عشق ہے وبالِ جان
مضطرب ہوں کیا کہوں؟ ہاں، نہیں، قبول ہے
مہ جبیں کی دل فریب ہر ادائے ناز پر
لذتِ فراق بھی پیش بیں قبول ہے
حاصلِ کلام سن، بر کلامِ ناقصاں
اعتراض بھی ترا عیب چیں قبول ہے
بس عروج کا قلق، ہم عناں نہیں قبول
اب ہمیں زوال بھی ہم نشیں قبول ہے
سِدْویؔ رشکِ آفتاب ہونا ہی نہیں کمال
عاشقوں کو عہدۂِ کم تریں قبول ہے

0
52