اگرچہ مجھے ملا نہ کرے ، مگر وہ خفا ہوا نہ کرے
ملن کی نہ کوئی آس رہے ، ہو ایسے جدا خدا نہ کرے
خدا سے تو ڈر ، نہ ہاتھ جھٹک ، گدا سے برا سلوک نہ کر
کہیں نہ خدا سے شکوہ کرے کہ تجھ کو ہرا بھرا نہ کرے
کہیں پہ خزاں بہار بنی ، کہیں پہ صبا بھی قہر بنی
کسی کا چراغ جل نہ سکے کسی کا دیا بجھا نہ کرے
اے طائرِ زیرِ دام بتا اسیرِ قفس کی دنیا ہے کیا
تو کیا اسیرِ زیست کرے جو تلخ نوا ہوا نہ کرے
کہو کہ سنے پیام مرا ، ہزار عداوتیں بھی رہیں
حریف مخالفت کو مگر ، شعار بنا لیا نہ کرے
وفا کے قریں پھٹکتا نہیں وہی تو جفا کشید ہوا
گناہ میں ہے جو لتھڑا ہوا وہ شخص جزا سزا نہ کرے
نہ دستِ دعا دراز کرے ، جو رب کے جلال سے نہ ڈرے
کسی کا اگر بھلا نہ کرے تو سِدْویؔ خدا خدا نہ کرے

0
41