کرنا ہے اگر اقرار تو کر، دنیا کا ہے ڈر تو پیار نہ کر
اس آتشِ عشق میں کود صنم اب جلنے سے انکار نہ کر
جس نے آواز اٹھائی ہے وہ شہرِ فتن میں دار چڑھا
تو جان سے جائے دیوانے اتنا بھی سماج سدھار نہ کر
نہ اندھیرے میں کوئی دیپ جلا، سیٹی نہ بجا سناٹے میں
غفلت میں ان کو رہنے دے مد مستوں کو بیدار نہ کر
دلدار فراق و وصل میں ہے رنج و غم اور غم تو غم ہے
تو میری محبت میں اپنے جیون کو جہنم زار نہ کر
آزاد فضا میں اڑتے رہنا میری فطرت ہے سِدْویؔ
مری رگ رگ سے تو واقف ہے پر کاٹ دے سوچ بچار نہ کر

0
31