آستیں جھاڑ کے چھپے سانپ کچلنے دے ہمیں
دشمنوں سے بھی نمٹیں گے گِر کے سنبھلنے دے ہمیں
آتشِ عشق سے ملا ہے غمِ یار کا سراغ
راحتِ جاں یہی ہے اس آگ میں جلنے دے ہمیں
بیچ سفر میں آبلہ پائی کا ڈر نہیں ہے ٹھیک
آس نہ چھوڑ دل کٹھن راہ پہ چلنے دے ہمیں
شمعِ فروزاں کو سکھا دیں گے پگھلنے کا ہنر
حدّتِ لمس سے ابھی اور پگھلنے دے ہمیں
سِدْویؔ غموں کا حشر میں لیں گے حساب دیکھنا
دامِ جہاں سے، زیست کے غم سے نکلنے دے ہمیں

0
51