| آستیں جھاڑ کے چھپے سانپ کچلنے دے ہمیں |
| دشمنوں سے بھی نمٹیں گے گِر کے سنبھلنے دے ہمیں |
| آتشِ عشق سے ملا ہے غمِ یار کا سراغ |
| راحتِ جاں یہی ہے اس آگ میں جلنے دے ہمیں |
| بیچ سفر میں آبلہ پائی کا ڈر نہیں ہے ٹھیک |
| آس نہ چھوڑ دل کٹھن راہ پہ چلنے دے ہمیں |
| شمعِ فروزاں کو سکھا دیں گے پگھلنے کا ہنر |
| حدّتِ لمس سے ابھی اور پگھلنے دے ہمیں |
| سِدْویؔ غموں کا حشر میں لیں گے حساب دیکھنا |
| دامِ جہاں سے، زیست کے غم سے نکلنے دے ہمیں |
معلومات