سب دشمنِ جاں اپنے ہمراہ نظر آئے
لے کر جو چلے بھائی تو چاہ نظر آئے
غفلت کے اندھیروں میں محبوس فقط ہم تھے
نادان جنہیں سمجھے ، آگاہ نظر آئے
تعریف کرے منہ پر اور پیٹھ پہ ہنستا ہے
اس دوست میں اک دشمن واللہ نظر آئے
جو لوگ تونگر تھے وہ بخل میں یکتا تھے
برعکس تہی دامن سب شاہ نظر آئے
انسان تماشائی ، انسان تماشا ہے
جس سَمت نظر جائے گمراہ نظر آئے
اکھڑ ہے ستمگر ہے جسے دعوۂِ الفت ہے
کج طبع مگر کرتا پرواہ نظر آئے
سِدْویؔ میں جہاں دیکھوں اک وہ ہی دکھائی دے
جس طرح مسافر کو اک راہ نظر آئے

0
74