سنسار جس کے حیلے حوالے سے ڈر گیا
وہ شخص میرے ایک مقالے سے ڈر گیا
کیا جانے خامشی میں اثر تھا کہ ظلم کیش
پل میں ستم رسیدہ کے نالے سے ڈر گیا
تا عمر خوفِ حسرتِ دل میں جیا کوئی
کوئی تخیلات کے جالے سے ڈر گیا
نَے خوش عروج سے تھا نہ غم ہے زوال کا
نکلا اندھیرے سے تو اجالے سے ڈر گیا
کوئی جیا ثبات مقدر کے خوف میں
سِدْویؔ تغیرات کے ہالے سے ڈر گیا

0
57