| اک مسئلہ ہے کوئی جسے حل نہ کر سکا |
| اس زیست کو بیان مفصل نہ کر سکا |
| عیبوں کی پردہ پوشی مسلسل نہ ہو سکی |
| دل میں وہ شخص راز مقفل نہ کر سکا |
| دکھ ایسے شخص کا ظن و تخمین کر کے دیکھ |
| پل ہجر کا جو آنکھوں سے اوجھل نہ کر سکا |
| مقتل میں قتلِ عام سے ہر چشم نم رہی |
| آرام جگ میں کوئی کسی پل نہ کر سکا |
| قسمت نے گرچہ مجھ کو مہاجر بنا دیا |
| ہجرت یہ دل وطن سے مکمل نہ کر سکا |
| موجِ محیط ناؤ کو الجھا نہیں سکی |
| دشوار رستہ قدموں کو بوجھل نہ کر سکا |
| شاید جلا ہے آتشِ جاں سوز میں یہ دشت |
| ساون بھی جس کی ریت میں جل تھل نہ کر سکا |
| جوشِ جنوں فریب میں سیال بن کے بھی |
| اس دل میں ارتعاش مسلسل نہ کر سکا |
| کہتے ہیں لوگ سِدْویؔ سخن کار خوب ہے |
| پر بزم میں وہ بات مدلل نہ کر سکا |
معلومات