اپنی راحت تمام کر دی ہے
تم پہ چاہت تمام کر دی ہے
جاؤ تم کو یہ سلطنت بخشی
بادشاہت تمام کر دی ہے
مشورہ ہے کہ عشق مت کرنا
ہم نے حجت تمام کر دی ہے
شعر پر کس نے سرد آہ بھری؟
غم کی لذت تمام کر دی ہے
چھوڑ کر تم کو ہر خوشی خود پر
تا قیامت تمام کر دی ہے
اب مروت کی ہم سے آس نہ رکھ
یہ رعایت تمام کر دی ہے
دوستو، مے کشو، خدا حافظ
عیش و عشرت تمام کر دی ہے
اک تبسم کی روشنی دے کر
اس نے ظلمت تمام کر دی ہے
اک ضرورت پہ زندگی کھو کر
ہر ضرورت تمام کر دی ہے
وقتِ توبہ دمِ نزع تک تھا
رب نے مہلت تمام کر دی ہے
محفلوں میں انہیں پڑھو سِدْویؔ
شعری قوت تمام کر دی ہے

0
60