ہم تو اٹل تھے قول سے باہر نہیں گئے
اور لوگ بھاؤ تول سے باہر نہیں گئے
وہ بھی حصارِ ذات میں الجھے رہے سدا
ہم بھی انا کے خول سے باہر نہیں گئے
آمادہ آزری پہ تھے محکوم جب تلک
حاکم خدائی بول سے باہر نہیں گئے
بے فکر چند پنچھی اُڑے آسمان میں
کچھ وحشتوں کے حول سے باہر نہیں گئے
اس جگ کی اپنی آنکھ سے عینک اتاریئے
کیوں آپ جگ کے جھول سے باہر نہیں گئے
اک بعد ایک دھوتے ہیں رسوائیوں کا داغ
بدنامیوں کے غول سے باہر نہیں گئے
قیمت لگا رہے تھے وہ انمول عشق کی
ہم سِدْویؔ بڑھتے مول سے باہر نہیں گئے

0
76