نَے عشق اور نہ جوشِ جنوں نے کمال کیا
رب کی صدائے کُن فَیَکوں نے کمال کیا
تدبیروں سے کوئی نہیں جب حل نکلا
پائے خرد میں عقلِ زبوں نے کمال کیا
ہوش خرد سے بیگانہ اب نیند میں ہوں
دن کی تھکن پر ضربِ سکوں نے کمال کیا
راحتِ وصلِ یار نہیں ملی تو نہ سہی
ہجر میں کلفتِ سوزِ دروں نے کمال کیا
سِدْویؔ جو بیداریِ شب نے سکوں چھینا
خواب و خیال فریبِ فسوں نے کمال کیا

0
36