غبارِ شکست چھٹنے لگا یہ کس کی دعا نے رنگ بھرا
حیات سے اپنی رنگ اڑا تو فضلِ خدا نے رنگ بھرا
طلوعِ سحر سے شام تلک عروج و زوال ساتھ چلے
نشاط کا رنگ اڑنے لگا تو شالِ عزا نے رنگ بھرا
حبیب جو تو نے چھین لیا تھا دستِ لقا سے رنگِ حنا
نہ قوسِ قزح ہی اس پہ چڑھا نہ سحرِ وفا نے رنگ بھرا
امنگ گئی شباب گیا نہ رونقِ حسن باقی رہی
اور اپنی اداسی حد سے بڑھی تو نغمہ سرا نے رنگ بھرا
نہ اپنی صنم سے گوئی رہی جب آس نہ باقی کوئی رہی
تو شمس و قمر نے ساتھ دیا امید و ضیا نے رنگ بھرا
بہار میں ایسی آگ لگی چمن کے چمن اجڑنے لگے
پھر ایک صدا سے عرش ہلا برستی گھٹا نے رنگ بھرا
جہاں سے وسیم سِدْویؔ کہاں زمانہ شناس لوگ گئے
کہ جن کے لہو نے سینچا چمن شعارِ وفا نے رنگ بھرا

0
50