گر ربطِ دل استوار کیجے
حد سے بڑھ کر نہ پیار کیجے
نَے راحتِ شب نہ دن میں ہے چین
کیسے ردِ اضطرار کیجے
لازم ہے درونِ دل بھی اخلاص
جو گفتگو پر وقار کیجے
میں اپنا وجود ڈھونڈ لاؤں
پابند کو واگزار کیجے
بچنے کی نہ کوئی راہ نکلے
اک وار تو جان دار کیجے
بچھڑے ہوئے لوگ آ ملیں پھر
شام آنے کا انتظار کیجے
رستہ ہے نہ سِدْویؔ منزلیں ہیں
مت دوجے پہ انحصار کیجے

0
75