جو زخم کرے رفو کہاں ہے
اب آدمی خیر خو کہاں ہے
گر ذوقِ آرزو ہے باقی
تو شوقِ جستجو کہاں ہے
مائل ہیں بجانبِ گنہ سب
خلقِ خدا سرفرو کہاں ہے
ناگاہ دھماکہ سا ہوا پھر
مت پوچھ گرا لہو کہاں ہے
ہر عیب و صفت تری بیاں کی
تعریف میں پھر غلو کہاں ہے
معیار سخن کا ذی حشم تھا
وہ طرزِ گفتگو کہاں ہے
جو سنگی کرے تری خوشامد
وہ دوست ہے تو عدو کہاں ہے
جو دھڑکنوں میں بسا ہے سِدْویؔ
وہ ہی وہ ہے تجھ میں تو کہاں ہے

0
692