اِہانتِ دل فگار نہ کر تو چاہے چڑھا دے دار مجھے
رفیق بدلنا چاہے اگر ، نہ جاتے ہوئے پکار مجھے
تمھارے رخِ جمال کی لَو ، تمازتِ آفتاب سی ہے
ٹھہرنا یہاں محال مجھے فرار بھی ناگوار مجھے
نصیب اگر بچھڑنا ہے ، تو ملال سے ہم کنار نہ کر
نظر سے مری گرائے مجھے نہ صدمہ دے جاندار مجھے
جو سوچ لیا ہے کر بھی گزر ، نہ فکر یہ کر کہ ہونا ہے کیا
جو بخت میں ہے سو مجھ کو ملے، نہیں ہے تو مثلِ خار مجھے
اِجابتِ اِمتَنان تری ، اِجابتِ اِمتَثال مری
بلند ہے ذوالجلال ہے تو، میں پست ہوں تو ابھار مجھے
نہ کشمکشِ حیات رہے نہ پردۂِ عنکبوت رہے
جو نخلِ مراد مل نہ سکے تو آس امید ، بار مجھے
نہ کوئی جو سِدْویؔ ساتھ چلے کہ بیچ سفر سے لوٹ چلے
سفر دمِ مرگ تک نہ رکے ، کہ بوجھ ہے انتظار مجھے

0
38