| خدا کا ڈر ہے زر ہے اور میں ہوں |
| نزع نزدیک تر ہے اور میں ہوں |
| ترا اک مستقر ہے اور تو ہے |
| کٹھن میرا سفر ہے اور میں ہوں |
| نقاب اس کے رخِ گلنار پر ہے |
| نظر بیتاب تر ہے اور میں ہوں |
| سفر میں ہم سفر حاصل ہے تجھ کو |
| مرا اک خالی گھر ہے اور میں ہوں |
| مجھے زیبا ہے کیا صورت پرستی |
| ہزیمت بار ور ہے اور میں ہوں |
| کئی فتنے امڈتے دیکھے میں نے |
| یہ شہرِ فتنہ گر ہے اور میں ہوں |
| یہ لگتا تھا نہ دھوکہ کھاؤں گا میں |
| فریبِ شہرِ زر ہے اور میں ہوں |
| تفاخر جچتا ہے سِدْویؔ اسی پر |
| مرا کیا؟ خاک سر ہے، اور میں ہوں |
معلومات