ہم کو لگا کہ شہر مٹانے گھٹا اٹھی
رب کا کرم کہ چشمِ زدن میں بلا ٹلی
ہر شخص دھوکہ باز تھا ہر شخص بد لحاظ
صد شکر تجھ سے شہر میں رسمِ وفا چلی
انساں کی گر عطا میں خدائی کا زعم ہو
ایسی سخاوتوں سے ہے اچھی گدا گری
ممکن کہاں تھا سر کو انا گیر خم کریں
لیکن شکست و ریخت اسے بھی جھکا گئی
سِدْویؔ یہ کیا کہ زندگی تنہا بسر کریں
کوئی تو ہم سفر ہو بھلا یا برا سہی

0
75