اک شان سے جب رشکِ قمر بات کرے گا
جل آتشِ الفت میں شرر بات کرے گا
نَے دست و شکم دل بھی وہاں بول اٹھیں گے
نَے خاک ہی اس روز تو زر بات کرے گا
سلطانی نہ حشمت ہی تری باقی رہے گی
دن حشر کے محکوم نڈر بات کرے گا
جو شخص مجھے ملنے کو تیار نہیں آج
تصویر سے کل شام و سحر بات کرے گا
محفل سے مجھے گو کہ نکالا ہے عدو نے
اب اس سے مرا قلمی ہنر بات کرے گا
پتھر بھی پگھل جائے گا گفتار سے تیری
اک بار تحمل سے اگر بات کرے گا
لب بستہ ہیں افلاس زدہ ہم کہ یہاں پر
کیا عالمِ غربت میں ہنر بات کرے گا
ہر آنکھ یہاں روئے گی سن کر مرے نالے
لفظوں میں مرا سوزِ جگر بات کرے گا
جب شہرِ خموشاں میں رہے شور و تماشا
کیا سِدْویؔ کوئی بندہ بشر بات کرے گا

0
41