| توضیح کے مرید نہ ایجاز کے اسیر |
| ہم تو ہیں صرف آپ کی آواز کے اسیر |
| ہر لمحہ خوف رہتا ہے افشائے راز کا |
| ہم راز دے کے ہو گئے ہم راز کے اسیر |
| بڑھتی رہیں گو راہ میں طوفاں کی سختیاں |
| روکے رکے نہ طاقتِ پرواز کے اسیر |
| کیا جانئے کہ کتنی سیاست کثیف ہے |
| اور سادہ لوح لوگ ہیں ممتاز کے اسیر |
| دلدل ہے عشق ایسی کہ بچنا محال ہے |
| انجام سے ہیں بے خبر آغاز کے اسیر |
| میں کیسے اپنے ڈھونگ کی پردہ دری کروں |
| جب ہیں عزیز مجھ سے دغا باز کے اسیر |
| تقریب کس لئے تھی کسی کو خبر نہ تھی |
| سِدْویؔ سبھی تھے دعوتِ شیراز کے اسیر |
معلومات