| آئے قضا ، دامِ ہست و بود سے نکلوں |
| ہجر کے طاری عدم جمود سے نکلوں |
| کنجِ قفس چھوڑ کے دل اپنا ہو آزاد |
| رنج و الم کی اگر قیود سے نکلوں |
| باندھ گیا ہے وفا کی ڈور سے مجھ کو |
| کیسے بتا میں تری حدود سے نکلوں |
| قرب صنم کا نشہ ہوں وقت لگے گا |
| اس کا خمار اترے تو وجود سے نکلوں |
| جگ میں ریا کا رواج ایسا ہے سِدْویؔ |
| جاں سے خلاصی ہو تو نمود سے نکلوں |
معلومات