آئے قضا ، دامِ ہست و بود سے نکلوں
ہجر کے طاری عدم جمود سے نکلوں
کنجِ قفس چھوڑ کے دل اپنا ہو آزاد
رنج و الم کی اگر قیود سے نکلوں
باندھ گیا ہے وفا کی ڈور سے مجھ کو
کیسے بتا میں تری حدود سے نکلوں
قرب صنم کا نشہ ہوں وقت لگے گا
اس کا خمار اترے تو وجود سے نکلوں
جگ میں ریا کا رواج ایسا ہے سِدْویؔ
جاں سے خلاصی ہو تو نمود سے نکلوں

0
39